تہجد کا بیان

السلام علیکم ورحمة الله وبركاته.
سوال: کیا یہ عمل کرنا درست ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب باسم ملهم الصواب
جی ہاں! یہ عمل احادیث سے ثابت ہے۔۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے صحابہ کو اس عمل کی تلقین فرمائی۔خود جناب رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم رات (تہجد) میں عبادات و ذکر و اذکار کا اہتمام فرمایا کرتے تھے۔
حَدَّثَنِي عُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ تَعَارَّ مِنْ اللَّيْلِ فَقَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ الْحَمْدُ لِلَّهِ وَسُبْحَانَ اللَّهِ وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاللَّهُ أَكْبَرُ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ ثُمَّ قَالَ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي أَوْ دَعَا اسْتُجِيبَ لَهُ فَإِنْ تَوَضَّأَ وَصَلَّى قُبِلَتْ صَلَاتُہ۔۔
(الترمذی:3414)
ترجمہ۔عبادہ بن صامت نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص رات کو بیدار ہو کر یہ دعا پڑھے::”_اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ملک اسی کے لیے ہے اور تمام تعریفیں بھی اسی کے لیے ہیں، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں، اللہ کی ذات پاک ہے، اللہ تعالی کے سوا کوئی معبود نہیں اور اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ کی مدد کے بغیر نہ کسی کو گناہوں سے بچنے کی طاقت ہے نہ نیکی کر نے کی ہمت ” پھر یہ پڑھے۔اے اللہ! میری مغفرت فرما۔ یا ( یہ کہا کہ ) کوئی دعا کرے تواس کی دعا قبول ہوتی ہے۔ پھر اگر اس نے وضو کیا ( اور نماز پڑھی ) تو نماز بھی مقبول ہوتی ہے۔۔*
ابن بطال رحمہ اللہ نے اس حدیث پر فرمایا ہے کہ :: “اللہ تعالی اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر یہ وعدہ فرماتا ہے کہ جو مسلمان بھی رات میں اس طرح بیدار ہو کہ اس کی زبان پر اللہ تعالی کی توحید، اس پر ایمان ویقین، اس کی کبریائی اور سلطنت کے سامنے تسلیم اور بندگی، اس کی نعمتوں کا اعتراف اور اس پر اس کا شکر وحمد اور اس کی ذات پاک کی تنزیہ وتقدیس سے بھرپور کلمات زبان پر جاری ہوجائیں توا للہ تعالی اس کی دعا کو بھی قبول کرتا ہے اور اس کی نماز بھی بارگاہ رب العزت میں مقبول ہوتی ہے۔ اس لیے جس شخص تک بھی یہ حدیث پہنچے، اسے اس پر عمل کو غنیمت سمجھنا چاہیے اور اپنے رب کے لیے تمام اعمال میں نیت خالص پیدا کرنی چاہیے کہ سب سے پہلی شرط قبولیت یہی خلوص ہے۔(تفہیم البخاری : 1154)
**********
حوالہ جات:
قرآن کریم سے :
1..’’تَتَجَافٰی جُنُوْبُہُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ خَوْفاً وَّطَمَعاً وَّمِمَّا رَزَقْنَاہُمْ یُنْفِقُوْنَ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِیَ لَہُمْ مِّنْ قُرَّۃِ أَعْیُنٍ۔۔۔۔۔۔‘‘
(الم السجدۃ: 17_14)
ترجمہ ۔۔
’’اُن کے پہلو (رات کے وقت) اپنے بستروں سے جدا رہتے ہیں، وہ اپنے رب کو ڈر اور اُمید (کے ملے جلے جذبات) کے ساتھ پکار رہے ہوتے ہیں، اور ہم نے اُن کو جو رزق دیا ہے وہ اُس میں سے (نیکی کے کاموں میں) خرچ کرتے ہیں، چنانچہ کسی متنفس کو کچھ پتہ نہیں کہ ایسے لوگوں کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک کا کیا سامان اُن کے اعمال کے بدلے میں چھپا کر رکھا گیا ہے۔ ‘‘

2..’’کَانُوْا قَلِیْلاً مِّنَ اللَّیْْلِ مَا یَہْجَعُوْنَ وَبِالْأَسْحَارِ ہُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ۔‘‘
(الذاریات:18_17)
ترجمہ۔
’’وہ رات کے وقت کم سوتے تھے، اور سحری کے اوقات میں وہ استغفار کرتے تھے۔ ‘‘

3..’’وَالَّذِیْنَ یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّہِمْ سُجَّداً وَّقِیَاماً۔ ‘‘
(الفرقان: 64)
ترجمہ::
’’اور (رحمان کے بندے وہ ہیں) جو راتیں اِس طرح گزارتے ہیں کہ اپنے پروردگار کے آگے (کبھی) سجدے میں ہوتے ہیں اور (کبھی) قیام میں۔”

4..إِنَّ رَبَّکَ یَعْلَمُ أَنَّکَ تَقُومُ أَدْنٰی مِنْ ثُلُثَیِ اللَّیْْلِ وَنِصْفَہٗ وَثُلُثَہٗ وَطَائِفَۃٌ مِّنَ الَّذِیْنَ مَعَکَ۔‘‘
(المزمل:20)
ترجمہ::
’’اے پیغمبر! تمہارا پروردگار جانتا ہے کہ تم دوتہائی رات کے قریب اور کبھی آدھی رات اور کبھی ایک تہائی رات (تہجد کی نماز کے لیے) کھڑے ہوتے ہو اور تمہارے ساتھیوں میں سے بھی ایک جماعت (ایسا ہی کرتی ہے)۔ ‘‘
 ********** *حدیثِ مباركه سے :

5.. أَخْبَرَنِي الْهَيْثَمُ بْنُ أَبِي سِنَانٍ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَهُوَ يَقُصُّ فِي قَصَصِهِ وَهُوَ يَذْكُرُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ أَخًا لَكُمْ لَا يَقُولُ الرَّفَثَ يَعْنِي بِذَلِكَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ رَوَاحَةَ وَفِينَا رَسُولُ اللَّهِ يَتْلُو كِتَابَهُ إِذَا انْشَقَّ مَعْرُوفٌ مِنْ الْفَجْرِ سَاطِعُ أَرَانَا الْهُدَى بَعْدَ الْعَمَى فَقُلُوبُنَا بِهِ مُوقِنَاتٌ أَنَّ مَا قَالَ وَاقِعُ يَبِيتُ يُجَافِي جَنْبَهُ عَنْ فِرَاشِهِ إِذَا اسْتَثْقَلَتْ بِالْمُشْرِكِينَ الْمَضَاجِعُ۔
(صحیح البخاری :: 1154)
ترجمہ::
ہیثم بن ابی سنان نے خبر دی کہ انہوں نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، آپ اپنے وعظ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کررہے تھے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ تمہارے بھائی نے ( اپنے نعتیہ اشعار میں ) یہ کوئی غلط بات نہیں کہی۔ آپ کی مراد عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ اور ان کے اشعار سے تھی جن کا ترجمہ یہ ہے : “ ہم میں اللہ کے رسول موجود ہیں، جو اس کی کتاب اس وقت ہمیں سناتے ہیں جب فجر طلوع ہوتی ہے۔ ہم تو اندھے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں گمراہی سے نکال کر صحیح راستہ دکھایا۔ ان کی باتیں اسی قدر یقینی ہیں جو ہمارے دلوں کے اندر جاکر بیٹھ جاتی ہیں اور جو کچھ آپ نے فرمایا وہ ضرور واقع ہوگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات بستر سے اپنے کوالگ کر کے گزارتے ہیں جبکہ مشرکوں سے ان کے بستر بوجھل ہو رہے ہوتے ہیں۔۔

🔸واللہ سبحانہ اعلم🔸

▫️10 صفر 1444ھ
▫️7 ستمبر، 2022ء

اپنا تبصرہ بھیجیں