حضرت مولانا محمد یوسف مدنی صاحب (نائب مہتمم وشیخ الحدیث معہد الخلیل الاسلامی )
جمع وترتیب : محمد حارث محمو د (فاضل ومتخصص: معہد الخلیل الاسلامی،استاد ورفیق دارالافتاءجامعۃ السعید)
مؤرخہ 22 رجب 1439بروز پیر مولانا عبد الواجد صاحب (مہتمم مدرسہ دار العلم رشیدیہ :فردوس کالونی ناظم آباد کراچی) نے بندہ سے رابطہ کیا کہ “طلباء کی تربیت” کے حوالہ سے “معہد الخلیل الاسلامی” کے ذمہ دار حضرات سے کچھ وقت مل جائے تو بہت مفید ہوگا،بندہ نے استاد محترم مولانا یوسف مدنی صا حب (نائب مہتمم وشیخ الحدیث : معہد الخلیل الاسلامی ) سے فون پر رابطہ کیا ، حضرت نے شفقت فرماتے ہوئے ملاقات کی اجازت دے دی ، مؤرخہ 23 رجب 1439بروز منگل 12:20 تا 12:50 تک الحمد للہ مولانا عبد الواجد صاحب اور مزید ان کے دو اساتذہ کرام کے ساتھ بندہ کی حضرت سے ملاقات ہوئی ،اس مختصر وقت میں استاد محترم نے نہایت جامع الفاظ میں “طلباء کی تربیت ” کے حوالہ سے کچھ نصائح فرمائےجن کو دوران ملاقات ہی بندہ نے مختصر طور پر قلم بند کرلیا،پھر اسی کی مدد سے ان نصائح کو بندہ نے اس نیت سے ترتیب دیا کہ اس کو مختلف ذرائع سے دیگر مدارس اور اداروں کے اساتذہ کرام تک پہنچایا جائے تاکہ حضرت کے ان ملفوظات کا فائدہ عام وتام ہوسکے ، دوسرے روز حضرت نے خود اس تحریر کو پڑھ کر بعض مقامات پر تصحیح فرمائی اور ساتھ ہی اس کی نشر واشاعت کی اجازت بھی مرحمت فرمادی۔
دوران گفتگو حضرت نے بعض باتیں براہ راست “طلباء کی تربیت ” کے حوالہ سے فرمائی اور بعض نصائح کا تعلق اساتذہ کرام اور سرپرست حضرات کی ذمہ داریوں سے متعلق تھا ،جو بالواسطہ طلباء کی تربیت ودیگر فوائد پر مشتمل ہیں،دونوں قسم کے نصائح کو الگ عنوان کے تحت ذکر کیا جاتا ہے۔
” طلباء کرام کی تربیت سے متعلق امور”
1۔۔۔ داخلے کے وقت ہی ہر طالب علم کو یہ بات باور کروا دی جائے کہ اچھے نمبرات کے ساتھ آپ کو “اخلاقی کیفیت” کے حوالے سے اساتذہ کرام اور منتظمین کو مطمئن کرنا ضروری ہے، ورنہ آپ سے معذرت کر لی جائے گی۔
2۔۔۔ہمارے ہاں روزانہ کی بنیاد پر “بیس منٹ ” تین گھنٹوں کے بعد مجلس ذکر ہوا کرتی ہے ، شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلو ی رحمہ اللہ اور دیگر اکابر یہی فرمایا کرتے تھے کہ اس پرفتن دور میں “ذکر اللہ” ہی ایسی چیز ہے جس سے آدمی بہت سے فتنوں سے محفوظ رہ سکتا ہے، اس مجلس میں طلباء و بعض اساتذہ کرام ایک جگہ جمع ہوکر انفرادی طور ذکر کرتے ہیں ، کوئی ذکر بالجہر، کوئی مراقبہ اور بعض حضرات ماثور تسبیحات کا اہتمام کرتے ہیں۔
3۔۔۔ہر ہفتہ دو ہفتہ میں ایک مرتبہ اسی مجلس کے وقت میں مختلف اصلاحی موضوعات پر بیان ہوتا ہے۔
4۔۔۔عصر کی نماز سے تقریباً پندرہ منٹ قبل ایک مجلس برائے طلباء ہوا کرتی ہے ،جس میں “اصلاحی وتربیتی مضامین پر مشتمل” کسی بھی کتاب کی تعلیم ہوتی ہے ۔
5۔۔۔ہماری یہ بھی فکر رہتی رہے ادارے میں وقتاً فوقتاً ملک بھر سے اکابرآتے رہیں ، ان کا آنا ادارے اور تمام ہی لوگوں کے لیے باعث برکت اور ظاہری وباطنی اصلاح کا مو ثر ترین ذریعہ ہے۔
5۔۔۔موبائل کے استعمال پر تعلیمی اوقات میں مکمل پابندی ہو،ہمارے ہاں یہ نظم ہے کہ کوئی طالب علم موبائل ساتھ لے کر آئے تو صبح آتے ہی جمع کروادے اور واپسی جاتے ہوئے پھر لے کر جائے ، تعلیمی اوقات میں کسی طالب علم کو موبائل استعمال کرتے ہوئےد یکھا گیا تو اس کا موبائل ضبط کر لیا جاتا ہے ،پھر سال کے اختتام پر واپس کیا جاتا ہے۔
6۔۔۔وضع قطع شریعت کے مطابق اور سادگی کی ترغیب دی جاتی ہے ،البتہ چونکہ ہمارے ہاں تمام طلباء شہری ہوتے ہیں اس لیے ان کے درجہ کا لحاظ کرتے ہوئے زیادہ سختی بھی نہیں کی جاتی۔
“اساتذہ کرام کی ذمہ داریوں سے متعلق امور”
1 ۔جو چیز بنیاد میں پڑجاتی ہے اس کے اثرات ہوتے ہیں،شروع ہی سے “حضرت مولانا یحیی مدنی نور اللہ مرقدہ (بانی معہد الخلیل الاسلامی )نے طلباء کی تعلیم وتربیت پر خصوصی توجہ فرمائی ،فرمایا کرتے تھے کہ “معہد الخلیل” کا دوسرا نام “مدرسۃ التعلیم والتربیۃ” ہے، اس لیے تعلیم کے زمانے کو تربیت کا زمانہ سمجھا جائے اور اسی کے مطابق لائحہ عمل تیار کیا جائے۔
2 ۔پھر فکری ،عملی ہر اعتبار سے طلباء کی تربیت کا خیال کیا جائے۔
3۔ ۔طلباء کی تربیت کے حوالہ سے اساتذہ کرام کی “اجتماعی محنت اور وحدت فکر” ضروری ہے، یک طرفہ محنت وفکر کے اثرات دیر پا نہیں ہوا کرتے ۔
4۔۔۔ تربیت میں اساتذہ کے ساتھ سرپرستان کا بھی بڑا کردار ہے ،اس لیے مدرسہ کے ذمہ داران اور استاتذہ کرام کا طلباء کے سرپرستان سے رابطہ رکھنا نہایت اہمیت کا حامل ہے ،ورنہ یہ ہوگاکہ اساتذہ ایک طرف سے محنت کر رہے ہوں گے اور دوسری طرف سے جب گھر کا ماحول سازگار نہیں ہوگا تو ان کی محنت رائیگاں چلی جائے گی،اسی لیے سرپرست حضرات سے وقتا فوقتاً رابطہ کرنا چاہیے اور ان کو گھر کے ماحول اور طالب علم کی تربیت کے حوالہ سے گزارشات کرنی چاہیے۔
5۔۔۔اس حوالہ سے اساتذہ کا کم ازکم “ماہانہ اجتماع” ہو جس میں چند امور قابل ذکر ہوں :
(الف) کمی کوتاہیوں کا تذکرہ اور اس کے حل کے حوالہ سے بات چیت ہو۔
(ب) عمدہ کارکردگی پر اساتذہ کرام کی حوصلہ افزائی ہو۔
(ج) کچھ وقت بزرگوں میں سے کسی کے ملفوظات کی تعلیم ہو۔
(د) کارکردگی میں مزید بہتری اور ترقی لانے کے حوالے سے مفید گزارشات ہوں۔
6۔طلبا ء کی تربیت کے حوالہ سے ایک ہی بات کا “تکرار” مختلف مواقع پر بہت ہی ضروری ہے ،بار بار کہتے رہیں گے تو اثر ضرور ہوگا، حضرت مولانا یحیی مدنی نور اللہ مرقدہ باربار طلباء سے یہ فرماتے تھے کہ ” باہر کی باتیں اور عادتیں مدرسے میں لانے کے بجائے یہاں کی باتیں باہر لے کر جایا کرو”،اسی طرح یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ گھر والوں کے ساتھ اس طرح رہا کرو کہ انہیں پتا چلے کہ دینی رنگ تم پر چڑھ رہا ہے “فجر کی نماز کے لیے تم گھر والوں کو اٹھایا کرو، کھانے کے لیے بیٹھوتو پانی تم گھر والوں کو پلایا کرو”
7۔ تعلیم وتربیت میں آج سب سے بڑی رکاوٹ “احساس ذمہ داری کا فقدان “ہے ، بلکہ آج دیکھا جائے تو ہر طبقہ کایہی بنیادی مسئلہ ہے ،ساری کمزوریوں کی جڑ اسی احساس کا فقدان ہے،با ر بار طالب علم کو اس کے ہدف اور مشن کا احساس دلایا جاتا رہے ،پہلے ہی دن سے اسے سمجھایا جائے کہ آپ کو آنے والے وقت میں لوگوں کو مقتدیٰ بننا ہے ، ہم آج یہ باتیں “دستار بندی کی تقریب” میں کرتے ہیں ،حالانکہ یہ احساس شروع ہی سے بار بار وقتاً فوقتاً اس کے دل ودماغ میں تروتازہ کیا جاتا رہے۔
8۔جو نصاب ہمارا ہے وہ کافی وشافی ہے،اس میں ہر قسم کے مضامین ہیں ، البتہ حالات کے اعتبار سے جزوی ترمیم واضافہ ناگزیر ہے،بس جو پڑھایا جا رہا ہے اسی کو بار بار طلباء کرام کوباور کروایا جائے کہ یہ آپ کی زندگی میں بھی آنا چاہیے۔
9۔طالب علم میں ایسی کمزوری جس سے مدرسہ کا ماحول خراب ہو رہا ہو اور وہ متعدی ہو ،ایسی کمزوریوں پر خاص نظر رکھنے کی ضرورت ہے، اس معاملہ میں بڑا سنجیدہ رہنا چاہیے۔
10۔ اگر کوئی طالب علم بار بار سمجھانے پر بھی نہ سمجھے تو کسی اچھے طا لب علم یا استاد کو اس کے ساتھ جوڑ دیا جائے۔
11۔سال کے آخر میں ہر طالب علم کی ایک رپورٹ تیار ہو ،جس کو بنیاد بناتے ہوئے اگلے سال اس کے داخلےکا فیصلہ کیا جاسکے۔
12۔ تدریس ایک مستقل فن ہے ، اسے سیکھا جائے ، ماہر تجربہ کار اساتذہ سے رابطہ میں رہا جائے ،آج ہو یہ رہا کہ جس طرح دوران تعلیم طالب علم تکرار کرواتا ہے ،اسی طر ح وہ سمجھتا ہے کہ تدریس بھی بس کتاب پڑھا دینے کا نام ہے۔
13۔ہر شخص کے لیے مدرسہ کا وقت” امانت” ہے،اس وقت میں اپنی سوچ کو بھی مدرسہ ہی کے کاموں میں صرف کرنا چاہیے، بعض اداروں میں تو ملازمین تک کے لیے موبائل کا استعمال منع ہے۔
14۔ طلباء کی تربیت میں اساتذہ کا بہت بڑا کردار ہے ،اسی لیے اساتذہ کی تقرری کرتے وقت اس کا بہت خیال کیا جائے اور ایسے اصول واضوابط کی پابندی کے عزم کے ساتھ ان کی تقرری کی جائے جو طلباء کی تربیت میں موثر کردار ادا کرتے ہوں، مزید یہ کہ نظری وفکری اعتبارسے وہ عقائد علماء دیوبند سے کلی متفق ہوں۔