تقسیم میراث

سوال: محترم جناب مفتیان کرام! السلام عليكم ورحمة الله! 

ایک صاحب کا انتقال ہوگیا ہے ان کی دو بیویاں ہیں، ان کا ورثے میں کتنا حصہ ہوگا؟

تنقیح: دو بیویوں کے علاوہ کون کون ہے رشتہ داروں میں؟

جواب تنقیح: 4 بھائی اور ایک بہن ہے کوئی اولاد نہیں ہے۔

والسلام

الجواب حامدا و مصليا

مذکورہ صورت میں مرحوم نے انتقال کے وقت اپنی ملكیت میں جو كچھ منقولہ غیرمنقولہ مال و جائیداد، دكان مكان، نقدی ،سونا، چاندی غرض ہر قسم كا چھوٹا بڑا جو بھی سازوسامان چھوڑا ہے، وہ سب مرحوم كا تركہ ہے۔

1⃣ ترکے سے سب سے پہلے مرحوم كے كفن دفن كا متوسط خرچہ نكالا جائے، اگر كسی نے یہ خرچہ بطور احسان ادا كردیا ہے تو پھر تركے سے نكالنے كی ضرورت نہیں۔

2⃣ اُس كے بعد دیكھیں اگر مرحوم كے ذمے كسی كا كوئی قرض واجب الادا ہوتو اُس كو ادا كیا جائے

3⃣ اُس كے بعد دیكھیں اگر مرحوم نے كسی غیر وارث كے حق میں كوئی جائز وصیت كی ہو توبقایا تركے كے ایک تہائی حصے كی حد تک اُس پر عمل كیا جائے۔

4⃣ اُس كے بعد جو تركہ بچے اُس كے 24 برابر حصے کیے جائیں گے۔

🔵 جس میں سے :

🔹6 حصے دونوں بیویوں میں برابر تقسیم ہوں گے ( فی بیوی: 3 حصے)

🔹باقی 18 حصے بہن بھائیوں کو ملیں گے۔

فی بھائی: 4 حصے

بہن: 2 حصے

🔵فی صد کے لحاظ سے:

🔹فی بیوی: %12.5

🔹فی بھائی : %16.66

🔹بہن: %8.33

دیا جائے گا۔

1. ولھن الربع مما ترکتم ان لم یکن لکم ولد۔ (النساء: 112)

2۔ للذکر مثل حظ الانثیین۔( النساء:111)

فقط۔

🔸و اللہ خیر الوارثین🔸

اپنا تبصرہ بھیجیں