تعزیت کرنے کا طریقہ

سوال: ہمارے علاقے میں صحیح العقیدہ لوگوں کی ترتیب ہے کہ فوتگی کے تیسرے دن تعزیتی مجلس کو ختم کرنے کے لیے نعت خواں اور عالم کو بلایا جاتا ہے جس میں عموماً جو نظم پڑھی جاتی ہے وہ اس میت کے متعلق ہی جیسے ماں کی فوتگی پر ماں کے بارے میں جس کے سننے کی وجہ سے عامی انسان کو بھی اس ماحول کی بنیاد پر بہت رونا آجاتا ہے جبکہ اہل خانہ کی تو بعض دفعہ چیخیں بھی نکل رہی ہوتی ہیں تو کیا یہ نوحے کے حکم میں نہیں آئے گا ۔اگر نہیں تو پھر نوحہ میں کیا فرق ہے

تنقیح : صحیح العقیدے سے آپ کی کیا مراد ہے؟
جواب تنقیح: دیوبند مسلک والے

الجواب باسم ملہم الصواب

بلاشبہ تعزیت کرنا سنت ہے اور مسلمان کو تسلی بھی دینی چاہیے اور اس کے غم میں برابر کا شریک بھی ہوناچاہیے؛ کیونکہ تمام مسلمان ایک جسم کی طرح ہیں ،البتہ اس کے لیے تیسرے دن کو مخصوص کرکے باقاعدہ محفل کا انعقاد کرنا شرعاً ثابت نہیں، لہذا اس سے اجتناب لازم ہے، نیز اس میں عورتوں کا زور سے رونا بھی شرعی طور نوحہ میں ہی داخل ہے شرعاً منع ہے۔
—————
حوالہ جات :

1۔يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ۔
(سورۃ البقرہ: 153)
ترجمہ: اے ایمان والو! صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو، بیشک اﷲ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔ أَنَّ أَبَا مَالِكٍ الْأَشْعَرِيَّ حَدَّثَهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَرْبَعٌ فِي أُمَّتِي مِنْ أَمْرِ الْجَاهِلِيَّةِ لَا يَتْرُكُونَهُنَّ الْفَخْرُ فِي الْأَحْسَابِ وَالطَّعْنُ فِي الْأَنْسَابِ وَالْاسْتِسْقَاءُ بِالنُّجُومِ وَالنِّيَاحَةُ وَقَالَ النَّائِحَةُ إِذَا لَمْ تَتُبْ قَبْلَ مَوْتِهَا تُقَامُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَعَلَيْهَا سِرْبَالٌ مِنْ قَطِرَانٍ وَدِرْعٌ مِنْ جَرَبٍ
(صحیح مسلم: 934)
ترجمہ: حضرت ابو مالک اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’میری امت میں جاہلیت کے کاموں میں سے چار باتیں (موجود) ہیں وہ ان کو ترک نہیں کریں گے اَحساب (باپ داداکے اصلی یا مزعومہ کا رناموں ) پر فخر کرنا (دوسروں کے) نسب پر طعن کرنا ستاروں کے ذریعے سے بارش مانگنا اور نوحہ کرنا ۔اور فرمایا ’’نوحہ کرنے والی جب اپنی مو ت سے پہلے توبہ نہ کرے تو قیامت کے دن اس کو اس حالت میں اٹھا یا جا ئے گا کہ اس (کے بدن ) پر تارکول کا لباس اور خارش کی قمیص ہو گی ۔‘‘

2۔عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَثَلُ الْمُؤْمِنِينَ فِي تَوَادِّهِمْ وَتَرَاحُمِهِمْ وَتَعَاطُفِهِمْ مَثَلُ الْجَسَدِ إِذَا اشْتَكَى مِنْهُ عُضْوٌ تَدَاعَى لَهُ سَائِرُ الْجَسَدِ بِالسَّهَرِ وَالْحُمَّى.
(صحیح مسلم: 2586)
ترجمہ: حضرت نعمان بن بشیر ؓ سے روایت ہے، کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: “مسلمانوں کی ایک دوسرے سے محبت، ایک دوسرے کے ساتھ رحم دلی اور ایک دوسرے کی طرف التفات و تعاون کی مثال ایک جسم کی طرح ہے، جب اس کے ایک عضو کو تکلیف ہوتی ہے تو باقی سارا جسم بیداری اور بخار کے ذریعے سے (سب اعضاء کو ایک دوسرے کے ساتھ ملا کر) اس کا ساتھ دیتا ہے۔”

3۔”وعن عبد الله بن مسعود قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ليس منا من ضرب الخدود وشق الجيوب ودعا بدعوى الجاهلية.”
(مشكوة المصابيح :1726)
ترجمہ:”حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” وہ شخص ہمارے راستے پر چلنے والوں میں سے نہیں ہے جو رخساروں کو پیٹے، گریبان چاک کرے اور ایام جاہلیت کی طرح آواز بلند کرے (یعنی رونے کے وقت زبان سے ایسے الفاظ اور ایسی آواز نکالے جو شرعا ممنوع ہے جیسے نوحہ یا واویلا کرنا وغیرہ وغیرہ).”

———————————————–

1۔ولا باس۔۔۔۔بتعزیۃ اھلہ وترغیبھم فی الصبر۔۔الخ
(قولہ بتعزیۃ اھلہ) ای تصبیرھم والدعاء لھم بہ—– والتعزیۃ ان یقول اعظم اللہ اجرک واحسن عزاءک و غفر لمیتک۔
(فتاوی شامیہ: جلد 2، صفحہ 239-240)

2۔التعزیۃ لصاحب المصیبۃ حسن۔۔۔۔ ویستحب ان یعم بالتعزیۃ جمیع اقارب المیت الکبار والصغار والرجال والنساء الخ۔
(فتاوی ھندیہ: جلد 1، صفحہ 167)

3۔واما النوح العالي فلا يجوز والبكاء مع رقة القلب لابأس به ويكره للرجال تسويد الثياب وتمزيقها للتعزية
ولا باس للتسويد للنساء. واما تسويد الخدود والايدي
وشق الجيوب وخدش الوجوه ونشر الشعور ونثر التراب علي الرؤوس والضرب علي الفخذ والصدر وايقاد النار علي القبور فمن رسوم الجاهلية والباطل والغرور. كذا في المضمرات.
(فتاوی ھندیہ: جلد 1، صفحہ 167)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1۔میت کے رشتہ داروں کو تسکین و تسلی دینا، صبر کے فضائل اور اس کو ثواب سنا کر ان کو صبر پر رغبت دلانا اور ان کے لیے اور میت کے لیے دعا کرنا جائز ہے اسی کو تعزیت کہتے ہیں۔
(تسہیل بہشتی زیور: جلد 1، صفحہ 385)

2۔کسی مسلم کے انتقال پر میت کے متعلقین کی تعزیت کرنا یعنی تلقین صبر وغیرہ کرنا سنت سے ثابت ہے ۔
(فتاوی محمودیہ:جلد 8،صفحہ 255)
———————————————-
واللہ اعلم بالصواب
8دسمبر2022
14جمادی الاول1444

اپنا تبصرہ بھیجیں