تحقیق احادیث

سوال: 1 ۔ ایک خوبصورت حدیث ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‘جب کوئی آدمی مرتا ہے اور اس کے رشتہ دار جنازے میں مصروف ہوتے ہیں، تو اس کے سر کے پاس ایک انتہائی خوبصورت آدمی کھڑا ہوتا ہے۔ جب میت کو کفن دیا جاتا ہے تو وہ آدمی کفن اور میت کے سینے کے درمیان آ جاتا ہے۔ جب تدفین کے بعد لوگ گھر لوٹتے ہیں تو دو فرشتے یعنی منکر اور نکیر (جو دو خاص فرشتوں کے نام ہیں) قبر میں آتے ہیں اور اس خوبصورت آدمی کو مردہ آدمی سے الگ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، تاکہ وہ اس قابل ہو سکیں۔ مردہ آدمی سے اس کے ایمان کے بارے میں رازداری میں پوچھ گچھ کریں۔ لیکن خوبصورت آدمی کہے گا، ‘وہ میرا ساتھی ہے، وہ میرا دوست ہے۔ میں اسے اکیلا نہیں چھوڑوں گا۔ اگر آپ کو تفتیش کے لیے مقرر کیا گیا ہے تو اپنا کام کریں۔ میں اسے اس وقت تک نہیں چھوڑ سکتا جب تک کہ میں اسے جنت میں داخل نہ کر دوں۔ اس کے بعد وہ اپنے مردہ ساتھی کی طرف متوجہ ہو کر کہتا ہے کہ میں وہ قرآن ہوں جسے تم پڑھا کرتے تھے کبھی بلند آواز میں اور کبھی دھیمی آواز میں۔ فکر نہ کرو. منکر و نکیر سے پوچھ گچھ کے بعد تمہیں کوئی غم نہیں ہوگا۔ جب پوچھ گچھ ختم ہو جاتی ہے تو خوبصورت آدمی المعلی (جنت کے فرشتے) سے اس کے لیے مشک سے بھرا ہوا ریشمی بستر ترتیب دیتا ہے۔

2 ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‘قیامت کے دن اللہ کے نزدیک کوئی اور سفارشی قرآن سے بڑا نہیں ہوگا، نہ کوئی نبی اور نہ فرشتہ‘۔

3 ۔ برائے مہربانی اس حدیث کو سب تک پہنچاتے رہیں۔کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‘مجھ سے علم پہنچا دو خواہ ایک آیت ہی کیوں نہ ہو‘۔

کیا یہ باتیں صحیح ہیں؟

الجواب باسم ملھم الصواب

1 ۔ سوال میں مذکور روایت کے بارے میں علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ کی رائے ہے کہ اس حدیث کی نسبت جناب رسول اللہ ﷺ کی طرف کرنا صحیح نہیں ہے۔کیونکہ اس میں راوی’’داؤد بن راشدالطفاوي‘‘ متہم ( جھوٹ کی تہمت )ہےاور ایک راوی ’’الکدیمی‘‘وضّاع یعنی روایات گھڑنے والاہے، لیکن علامہ سیوطی رح نے علامہ ابن جوزی ؒ کی بات کو رد کیا ہے ۔
اسی طرح راوی’’داؤد بن راشدالطفاوي‘‘ کوحافظ ابن حجرؒ نے اس طبقے میں شمار کیا ہے، جن کے بارے میں کوئی ایسی قابلِ گرفت بات ثابت نہیں ہے، جس کی وجہ سے ان کی روایت کو ترک کیاجائے۔لہذا یہ روایت بیان کی جاسکتی ہے۔

2 ۔ یہ روایت بعینہ ان الفاظ کے ساتھ نہیں ملی البتہ احادیث مبارکہ میں یہ مضمون تھوڑے مختلف الفاظ کے ساتھ منقول ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم قیامت کے دن اپنے پڑھنے والے کی سفارش کرے گا۔

3 ۔ حدیث مبارک بیان کرنے کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد مروی ہے کہ “بلغوا عني ولو آية،لیکن اس کے لیے تحقیق ہونا ضروری ہے کہ واقعی حدیث ہو ، ورنہ خود سے کوئی روایت گھڑنے کی احادیث مبارکہ میں بہت وعید آئی ہے ۔

=================
حوالہ جات :

1 ۔ عن عبادة بن الصامت، قال: ۔۔۔۔۔۔فإذا حضرته الوفاة جاء القرآن, فوقف عند رأسه وهم يغسلونه, فإذا فرغوا منه, دخل القرآن حتى صار بين صدره وكفنه, فإذا وضع في حفرته وجاء منكر ونكير, خرج القرآن حتى صار بينه وبينهما, فيقولان: إليك عنا, فإنا نريد أن نسأله, فيقول: ما أنا بمفارقه.
قال أبو عبد الرحمن: وكان في كتاب معاوية بن حماد: إلي حتى أدخله الجنة، فإن كنتما أمرتما فيه بشيء فشأنكما، ثم ينظر, فيقول: هل تعرفني؟ فيقول: لا، فيقول: أنا القرآن الذي كنت أسهر ليلك, وأظمئ نهارك، ۔۔۔۔الخ

تخریج الحدیث :
( أخرجہ الحارث فی مسندہ کما فی قال الھیثمی فی بغية الباحث عن زوائد مسند الحارث: (736/2، رقم الحدیث: 730، ط: مركز خدمة السنة)
وأبي بكر بن أبي الدنيا في كتاب التهجد: (38/2، رقم الحدیث: 3۰، ط: دار أطلس الخضراء)
و ابن نصر المَرْوَزِي فی قیام اللیل: (141، ط: حديث أكادمي)
وا بن الضريس فی فضائل القرآن: (65، رقم الحدیث: 115، ط: دار الفکر)
و العقیلی فی الضعفاء: (13/2، رقم الحدیث: 468، ط: دار التأصيل)

الحکم علی الحدیث:

الموضوعات لابن الجوزی: (252/1، ط: المكتبة السلفية)
وقد رواه العقيلي عن إبراهيم بن محمد عن عمرو بن مرزوق عن داود أبسط من هذا.
هذا حديث لا يصح عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، والمتهم به داود.
قال يحيى بن معين: داود الطفاري [الطفاوي] الذي روى عنه حديث القرآن ليس بشئ.
وقال العقيلي: حديث داود باطل لا أصل له، ثم فيه الكديمى، وكان وضاعا للحديث.

اللآلىء المصنوعة للعلامۃ السیوطی: (220/1، ط: دار الكتب العلمية)
(قلت) الكديمي منه بريء فقد أخرجه الحارث في مسنده، حدثنا أبو عبد الرحمن المقري حدثنا داود، وأخرجه ابن أبي الدنيا في كتاب التهجد.
حدثنا محمد بن الحسن حدثنا أبو عبد الرحمن المقري عبد الله بن يزيد حدثنا داود أبو بحر عن صهر له يقال له سلم بن مسلم عن مورق العجلي عن عبيد بن عمير عن عبادة به، وأخرجه ابن الضريس في فضائل القرآن أنبأنا عمرو بن مرزوق أنبأنا داود أبو بحر الكرماني به وأخرجه محمد بن نصر في كتاب الصلاة حدثنا محمد بن يحيى حدثنا عبد الله بن يزيد حدثنا داود بن راشد الكرماني به، وأخرجه العقيلي قال حدثنا محمد بن إسماعيل حدثنا المقري (ح) وحدثنا إبراهيم بن محمد حدثنا عمرو بن مرزوق قالا حدثنا داود أبو بحر الطغاوي عن مسلم بن أبي مسلم عن مورق العجلي عن عبيد بن عمير الليثي أنه سمع عبادة بن الصامت فذكره.۔۔الخ ۔

2 ۔ ” وذکرہ العلامۃ ابن حجر العسقلاني فی المطالب العَاليَة:(402/14، رقم الحدیث: 3500) لم یتکلم علیہ.”
(تنزيه الشريعة المرفوعة لابن عراق الكناني: (292/1، ط: دار الکتب العلمیۃ)۔

—————-

3 ۔ ” الصِّیَامُ وَالْقُرْآنُ یَشْفَعَانِ لِلْعَبْدِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ یَقُولُ الصِّیَامُ: أَیْ رَبِّ مَنَعْتُہُ الطَّعَامَ وَالشَّہَوَاتِ بِالنَّہَارِ فَشَفِّعْنِی فِیہِ وَیَقُولُالْقُرْآنُ: مَنَعْتُہُ النَّوْمَ بِاللَّیْلِ فَشَفِّعْنِی فِیہِ قَالَ: فَیُشَفَّعَانِ (مسند احمد: 8324)

ترجمہ
” روزہ اور قرآن قیامت کے دن بندے کے لئے شفاعت کریں گے روزہ کہے گا: اے میرے رب! میں نے اس کو کھانے پینے اور دوسری خواہشات سے روکے رکھا پس تو اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما اُدھر قرآن کہے گا: میں نے اس کو رات کو نہ سونے دیا پس تو اس کے حق میں  میری سفارش قبول فرما، سو ان کی سفارش قبول کر لی جائے گی۔

4 ۔ ” اقْرَءُوا الْقُرْآنَ فَإِنَّهُ يَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ شَفِيعًا لِأَصْحَابِهِ اقْرَءُوا الزَّهْرَاوَيْنِ الْبَقَرَةَ وَسُورَةَ آلِ عِمْرَانَ فَإِنَّهُمَا تَأْتِيَانِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كَأَنَّهُمَا غَمَامَتَانِ أَوْ كَأَنَّهُمَا غَيَايَتَانِ أَوْ كَأَنَّهُمَا فِرْقَانِ مِنْ طَيْرٍ صَوَافَّ تُحَاجَّانِ عَنْ أَصْحَابِهِمَا اقْرَءُوا سُورَةَ الْبَقَرَةِ فَإِنَّ أَخْذَهَا بَرَكَةٌ وَتَرْكَهَا حَسْرَةٌ وَلَا تَسْتَطِيعُهَا الْبَطَلَةُ“۔
(صحیح مسلم : 1874)۔
ترجمہ:
قرآن پڑھا کرو کیونکہ وہ قیامت کے دن اصحاب قرآن (حفظ وقراءت اور عمل کرنے والوں) کا شفاعتی بن کر آئےگا دو روشن چمکتی ہوئی سورتیں : البقرہ اور آل عمران پڑھا کرو کیونکہ وہ قیامت کے دن اس طرح آئیں گی جیسے وہ دو بادل یا دو سائبان ہوں یا جیسے وہ ایک سیدھ میں اڑتے پرندوں کی وہ ڈاریں ہوں وہ اپنی صحبت میں (پڑھنے اور عمل کرنے) والوں کی طرف سے دفاع کریں گی سورہ بقرہ پڑھا کرو کیونکہ اسے حاصل کرنا باعث برکت اور اسے ترک کرناباعث حسرت ہے اور باطل پرست اس کی طاقت نہیں رکھتے ۔ 

5 ۔ ” سورہ ملک کے بارے میں ہے :
“سُورَةٌ مِنَ الْقُرْآنِ ثَلَاثُونَ آيَةً تَشْفَعُ لِصَاحِبِهَا حَتَّى يُغْفَرَ لَهُ:‏‏‏‏ تَبَارَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ “۔
(سنن ابو داؤد:1400)
ترجمہ
قرآن پاک کی ایک سورۃ جو تیس آیات پر محیط ہے اپنے پڑھنے والے کی سفارش کرے گی یہاں تک کہ اس کی مغفرت ہو جائے اور وہ “تَبَارَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ” ہے ۔
————–
عن عبد الله بن عمرو بن العاص -رضي الله عنهما-: أن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: «بلغوا عني ولو آية، وحدثوا عن بني إسرائيل ولا حرج، ومن كذب علي متعمدا فَلْيَتَبَوَّأْ مقعده من النار».
(صحیح البخاری : 3461)۔
ترجمہ
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی الله عنہما – سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا: ”میری طرف سے لوگوں کو (احکامِ الٰہی) پہنچا دو اگرچہ ایک آیت ہی ہو، اور بنی اسرائیل سے روایت کرو، ان سے بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں، اور جس نے مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھا تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے“۔

واللہ اعلم بالصواب ۔ 
20 جمادی الاولی 1444
14 دسمبر 2022۔

اپنا تبصرہ بھیجیں