وفات کے بعد مشترکہ جائیداد کا حکم

سوال: السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک گھر ہے جو شوہر اور بیوی دونوں کے نام ہے ۔ دونوں بہت سالوں سے بیرون ملک رہ رہے ہیں۔ گھر میں پیسہ سارا شوہر کا لگا ہے۔ شوہر کے انتقال کے بعد گھر قانونی طور پہ بیوی کے نام ہو گیا۔
سوال یہ ہے کہ اب اس میں ترکہ تقسیم کرنا ہوگا یا نہیں کیونکہ اب گھر بیوی کے نام ہے تو وہ اپنی مرضی سے اپنی زندگی میں اپنی اولاد کو بعد میں جب وہ چاہے ہدیہ کر سکتی ہے۔
برائے مہربانی جواب ارسال فرمائیں۔

تنقیح1:کیا مرحوم نے اپنی زندگی میں بیوہ کو کاغذی کاروائی میں شریک کرنے کے ساتھ ساتھ اسے گھر کا باقاعدہ مالک اور قابض بھی بنادیا تھا؟
جواب تنقیح: جی ہاں۔

تنقیح2: باقاعدہ قبضہ زبانی بولنے کو نہیں کہتے بلکہ شوہر اپنا سامان بالکل نکال دے یا اگر سامان موجود ہے تو بیوی کے پاس عاریتا رکھوادے۔
اس طرح ہوا تھا یا صرف زبانی کہا تھا؟
جواب تنقیح: زبانی کہا تھا۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ!
الجواب باسم ملھم الصواب

چونکہ مرحوم نے گھر کی ملکیت بیوی کے نام تو کی تھی اور ہبہ کے الفاظ بھی کہے، لیکن بیوی کو قبضہ اور تصرف نہیں دیا، بلکہ اپنی زندگی میں گھر کا قبضہ اور تصرف شوہر نے اپنے ہاتھ میں ہی رکھا تھا، تو یہ ہبہ مکمل نہیں ہوا، کیونکہ اس میں ہبہ کرنے والے کا تصرف باقی ہے، لہذا یہ پورا گھر مرحوم کی ملکیت ہی ہے، لہذا یہ پورا گھر ترکہ میں شامل ہوکر تمام ورثاء میں ان کے حصے کے بقدر تقسیم ہوگا۔
=======================
حوالہ جات:

1۔ منها الملک التام وھو ما اجتمع فیہ الملک والید۔
(الفتاوی الہندیہ: 189/1)

2۔ وتتم بالقبض قَالَ فی الھدایة: القبض لا بد منہ لثبوت الملک؛ لأن الھبة عقد تبرع، وفی إثبات الملک قبل القبض إلزام المتبرع شیئا لم یتبرع بہ وھو التسلیم، فلا یصح۔
(الجوھرة النیرہ: 15/2)

3۔القبض فی الدار التی یسکنھا البائع: ثم اشترط الفقھاء لصحة تسلیم الدار، أن تکون خالیة من أمتعة البائع؛ فإن کانت مشغولة بھا لایتحقق القبض حتی یفرغھا، ولکن جاء فی الفتاوی الھندیة، عن فتاوی أبی اللیث: فإن أذن البائع للمشتری بقبض الدار والمتاع، صح التسلیم، لأن المتاع صار ودیعة عند المشتری۔
(فقہ البیوع: 386/1)

4۔ جب مرحوم تا حین وفات جائیداد پہ خود ہی قابض و متصرف رہا، اس کی زندگی میں موہوب لہ کا مالکانہ قبضہ اور تصرف ثابت نہیں تو یہ ہبہ معتبر نہیں۔ جملہ ورثاء وارث ہیں،اپنے حصے لے سکتے ہیں۔
(فتاوی رحیمیہ: 312/9 )

5۔ ہبہ زبانی بھی ہوسکتا ہے، لیکن ہبہ کی تکمیل اس وقت تک نہیں ہوتی جب تک موہوب لہ (یعنی وہ شخص جس کو ہبہ کیا جارہا ہے) اس پر قبضہ نہ کرلے۔
(فتاوی عثمانی: 440/3)

واللہ اعلم بالصواب

17 رجب 1444ھ
8فروری 2023ء

اپنا تبصرہ بھیجیں