وحی آنے کے بعد مکی زندگی

“دسواں سبق”

“وحی آنے کے بعد مکی زندگی”

1-“پہلی وحی”

جب آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کی عمر” چالیس سال” کی ہوئ تو ایک دن “حضور اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم”غار حرا میں عبادت میں مشغول تھے کہ”حضرت جبرائیل علیہ السلام” نے”آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کو پکارا اور کہا”میں جبرائیل ہوں اور آپ اس امت کے نبی ہیں-

پھر انہوں نے ایک ہیرے موتیوں سے جڑا سبز رنگ کا رومال”آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم”کے ہاتھ پر رکھا اور کہا”اقراء” “آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے کہا”واللہ! ما انا بقاری” اللّٰہ کی قسم مجھے پڑھنا نہیں آتا/میں پڑھا ہوا نہیں ہوں-تب جبرئیل علیہ السلام نے” آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کو زور سے بھینچا اور کہا کہ “پڑھئے- “آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے کہا”مجھے پڑھنا نہیں آتا-اس طرح “3”دفعہ ہوا- چوتھی دفعہ میں”آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے پڑھنا شروع کیا- یہ”سورہ علق” کی شروع کی”5″آیات تھیں-اس طرح نبوت کا تاج”سر اقدس” پر رکھا گیا-(شرح المواہب)

“وحی” کے نزول کے ساتھ “تمام عرب بلکہ دنیا کی تقدیر ہی بدل گئی-پہلی وحی”اقراء” تھی جس میں یہ پیغام پوشیدہ تھا کہ “تعلیم اور تعلم”اور علوم” سےاس امت کو عروج ملنے والا ہے- “مؤرخین” کا اس پر اتفاق ہے کہ” میرے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کو نبوت”پیر” کے دن عطاء ہوئ٫لیکن “ماہ” کے بارے میں اختلاف ہے کہ”ربیع الاول” “8”ہے یا “رمضان” کی “17” –

“ابن عبد البر” کے نزدیک “8”ربیع الاول”اور”ابن اسحاق” کے قول کے مطابق”17″رمضان” کو “پیارے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم”نبوت سے سرفراز ہوئے- اس قول کے مطابق بوقتِ بعثت”آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کی عمر مبارک”40″ سال”6″ ماہ تھی-

“فائدہ:اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ”اصلاح احوال”سوچ بچار”گوشہء نشینی”ذکراللہ”اور تعلیم کی کس قدر ضرورت اور اہمیت ہے-اگر آج امت کو کامیابی حاصل کرنی ہے تو اسے پہلے اپنا “تعلق مع اللہ” مضبوط کرنا ہوگا اور اپنا رشتہ” تعلیم “سے جوڑنا ہوگا- “امت کا درد و غم “دل میں پیدا کرنا ہوگا٫اس کے بعد ہی”اللّٰہ تعالٰی”اس سے کام لیں گے-

2-“دعوت کا خفیہ سلسلہ”

“اہل مکہ” کے حالات “آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے سامنے تھے-وہ بت پرست” اور اپنے”آباؤاجداد”کی روش پر چلنے والی قوم تھی-اس لئے”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے”حکمت و دانائی سے کام لیتے ہوئے پہلے خفیہ محنت شروع کی٫تاکہ مکہ والوں کے سامنے کوئ اشتعال انگیز صورتحال نہ پیدا ہوجائے-

احتیاط کے طور پر صرف ان” سلیم الفطرت اور حق پرست”لوگوں کو دین کی دعوت دی جو”آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کے” قریبی ساتھی” تھے-اس دعوت سے”اماں خدیجہ رضی اللّٰہُ عنہا”حضرت ورقہ بن نوفل٫ حضرت ابوبکر صدیق ٫ حضرت جعفر بن ابی طالب٫ حضرت عفیف کندی٫ حضرت طلحہ٫ حضرت سعد بن ابی وقاص٫ حضرت خالد بن سعید٫ حضرت عثمان غنی٫ حضرت عمار بن یاسر٫اور انکے اہل خانہ٫ حضرت صہیب رومی٫ حضرت عمر بن عنبسہ٫ حضرت ابو ذر غفاری٫اور حضرت زید بن حارثہ” رضوان اللہ علیہم اجمعین”آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کی دعوت پر ایمان لائے- یہ سب اصحاب”سابقون الاولون” کہلائے-نبوت کےتیسرے سال”حضرت زید بن حارثہ رضی اللّٰہُ عنہ کے بیٹے”حضرت اسامہ رضی اللّٰہ عنہ” کی ولادت ہوئی٫وہ پیدائشی مسلمان تھے-انکی والدہ”حضرت ام ایمن رضی اللّٰہ عنہ” “آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” تھیں جو “آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کے والد”حضرت عبداللہ” کی باندی تھیں اور”بی بی آمنہ” کے انتقال کے وقت بھی یہی ایک غمگسار تھیں جو”آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کے ساتھ تھیں-“میرے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم”ام ایمن” کی بہت عزت کرتے تھے اور”حضرت اسامہ بن زید رضی اللّٰہ عنہ”سے بھی بہت محبت کرتے تھے-

4-“دعوت وتبلیغ کے نکات”

“رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کی دعوت وتبلیغ کے”3″نکات تھے”جو ہر نبی کے پیش نظر رہے اور قیامت تک موجود رہیں گیں”-1-توحید٫ 2-رسالت- 3-قیامت( بعث بعد الموت )

1-“توحید “کا مطلب ہے” اللہ کو ایک ماننا٫اور اسکی ہی عبادت کرنا- کیونکہ جب خالق ومالک”اللّٰہ” ہے تو عبادت بھی اس ہی کی ہونی چاہئے اور ہر قسم کی مدد بھی اسی سے مانگنی چاہئے-کائنات کی ہر شے کا “مالک و خالق حقیقی” وہی ہے٫ اس کے علم و قدرت سے کوئ باہر نہیں- وہ “ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا “اور وہ ہر جگہ موجود ہے- ہماری شہ رگ سے بھی قریب ہے-اسکے سوا جو کچھ ہے وہ “مخلوق ہے”٫مخلوق” میں” خالق” کی کوئی صفات نہیں ہونی چاہئے-

“رسالت” اللّٰہ تعالٰی”نے یہ کائنات”اپنے محبوب” “حضرت محمد مصطفی صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کو دنیا میں لانے کے لئے بنائ-

“اللّٰہ تعالٰی”نے جب کائنات بنائ تو اس کے دو نظام بنائے٫ ایک” ظاہری اور مادی٫”اور دوسرے”باطنی اور روحانی”-“اللّٰہ تعالٰی” نے جب” مادی نظام” کے لئے” سسٹم” بنایا ہے تو “روحانی نظام” کے لئے بھی ایک “سسٹم” ہونا ضروری تھا٫ جو” مخلوق کو خالق” سے جوڑے اور “خالق” سے پیغامات لے کر “مخلوق”کو پہنچائے- جن ہستیوں کو اس کام کے لئے چنا جاتا ہے انہیں “انبیاء٫رسل اور پیغمبر” کہا جاتا ہے-“انبیاء کرام” ہم انسانوں ہی میں سے”چنے”جاتے ہیں٫ لیکن وہ” افضل البشر” بھی ہیں-

“اللّٰہ تعالٰی”ہم انسانوں سے کیا چاہتا ہے؟؟؟اسے”انبیاء کرام” ہی سمجھا سکتے ہیں-اس لئے ان پر ایمان لانا٫ان کی اطاعت کرنا اور ان کی “توقیر و عزت” کرنا حد درجہ ضروری ہے-

“قیامت” ہندوؤں کی طرح” مشرکین بھی “قیامت” کو نہیں مانتے تھے-“پیارے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے انہیں سمجھایا کہ”قیامت” آکر رہے گی٫تبھی تو نیک لوگوں کو انکی نیکیوں کا بدلہ اور بدکاروں اور کافروں کو انکی برائیوں کا پورا پورا حساب” روز قیامت”دینا ہوگا-یہ دنیا”دار العمل” ہے جبکہ”آخرت” دار الجزاء ہے-“آخرت” میں دوبارہ زندہ اٹھائے جانے کو بھی “کفار اور مشرکین” نہیں مانتے تھے- “بعث بعد الموت” یعنی مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے کو- کہتے تھے “کیاجب ہم مر جائیں گے مٹی ہو جائے گیں تو دوبارہ زندہ کئے جائیں گے؟”اللّٰہ تعالٰی” نے اپنی آخری کتاب”قرآن مجید فرقان حمید” میں واضح طور پر بتا دیا ہے کہ جب”انسان” کچھ نہ تھا(حقیر قطرے کی صورت تھا)تب اس کو زندگی دی”تو اسکو دوبارہ زندہ کرنا تو زیادہ آسان ہے-

3-“دعوت عام”

آہستہ آہستہ”اسلام”کا چرچا ہونے لگااور لوگ “دائرہء اسلام “میں داخل ہونے لگے تو”رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کو حکم ہوا کہ”اپنی قوم”کو “علی الاعلان”حق کی طرف بلائیں-

“آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے”کوہ صفاء”پر چڑھ کر “اپنی قوم” کو آواز دی- جب سب جمع ہوگئے تو فرمایا”اے قریش!”اگر میں یہ کہوں کہ” پہاڑ کے پیچھے” دشمن کی فوج حملہ آور ہونے کو تیار ہے تو کیا تم یقین کر لوگے؟

پوری قوم نے یک زبان ہو کر کہا”نعم! ما جربنا علیک الا صدقا”( ہاں ہم نے “آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” میں سوائے صدق اور سچائ کے کچھ نہیں پایا-)اسکے بعد”میرے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے انہیں “اسلام اور حق “کی دعوت دی-

4-“قریش کی شدید مخالفت”

“قریش مکہ” جو”رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کو” صادق اور امین” پکارتے تھے”٫نبوت اور توحید “کا پیغام سننے کے بعد”آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کے شدید مخالف ہو گئے-کھلم کھلا “دشمنی ٫بغض٫اورعداوت” کے مظاہرے ہونے لگے- ایذا رسانیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا-“ابوجہل٫ابولہب٫ امیہ بن خلف٫ منبہ بن الحاج٫زبیر بن ابو امیہ٫ اسود بن عبد یغوث٫ سائب بن سیفی٫حارث بن قیس٫اسود بن عبد الاسد٫ولید بن مغیرہ٫ عاص بن سعید٫عاص بن ہاشم٫ عاص بن وائل٫ رقبہ بن ابی معیط٫ابو قیس بن الفاکہ٫عدی بن حمراء اور نظر بن حارث”ان کافر سرداروں کے نام ہیں جو “اسلام اور مسلم دشمنی” میں سب سے آگے تھے-

“آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کے چچا “ابو طالب”اگرچہ آخر وقت تک اسلام نہیں لائے تھے مگر” کفار “کے سامنے اپنے “بھتیجے” کی ڈھال بنے رہےاور”ان کی” حمایت کرتے رہے-

یوں تو ہر مسلمان ہونے والے شخص کو اذیتیں دی گئیں لیکن “غلاموں اور کمزور مسلمانوں” پر “ظلم و ستم” کے پہاڑ توڑے گئے- جیسے”حضرت بلال رضی اللّٰہ عنہ”پر ان کا آقا”امیہ بن خلف” نئے نئے مظالم ڈھاتا تھا- مگر”آپ رضی اللّٰہ عنہ” کی زبان”احد احد “ہی پکارتی تھی-

“آل یاسر” کو اتنی اذیتیں دی گئیں کہ”حضرت یاسر رضی اللّٰہ عنہ”اور حضرت سمیہ رضی اللّٰہ عنہا” جاں بحق ہوگئے- “حضرت سمیہ رضی اللّٰہ عنہا” اسلام کی پہلی شہید کہلائیں-

“حضرت صہیب رومی٫” ابو فکیہہ”حضرت زنیرہ٫ حضرت عامر بن فہیرہ اور خباب بن الارت رضوان اللہ علیہم اجمعین” میں سے ہر ایک پر بے پناہ ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے مگر ایک مرتبہ”توحید کی گواہی” دینے کے گواہی دینے کے بعد دنیا کی کوئی طاقت ان کے “ایمان” کو ان کے دلوں سے نہ نکال سکی-

خود”رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم”کو بھی بے انتہا تکالیف دی گئیں- آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کو مجنوں٫ساحر٫کاہن٫شاعر اور کیا کیا کچھ نہیں کہا گیا-“آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کے راستےمیں کانٹے بچھائے گئے٫غلاظت ڈالی گئیں٫سجدے کی حالت میں” اونٹ کی اوجھڑی” گردن میں ڈلوادی گئ٫قتل کی سازشیں ہوئیں٫ لیکن “آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے ان تمام”مصائب و تکالیف” کا مقابلہ”صبر و استقامت سے کیا اور” راہِ حق” سے ہٹنا گوارا نہ کیا-

“میرے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کو”دولت کی٫ خوبصورت اور مالدار لڑکی سے نکاح کی٫ قبیلے کی سرداری کی یہاں تک کہ اگر جنون یا کوئ آسیب ہے تو اس کا علاج کروانے کی بھی پیشکش کی گئی- مگر”آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم”نے ان کی تمام چالوں اور پیشکشوں کو ٹھکرا دیا-

“چچا ابو طالب” جو ان کفار کے سامنے” اپنے بھتیجے” کی بہت بڑی ڈھال تھے ان کو بھی ” آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کے خلاف ورغلایا” یہاں تک کہ یہ پیشکش بھی کی کہ”ہم آپ کو اس بھتیجے کی جگہ ایک اعلیٰ خاندان کا لڑکا آپ کو دینے کو تیار ہیں٫ بس آپ”اپنے بھتیجے کی وکالت اور طرف داری سے باز آ جائیں-“ابو طالب نے” ان سرداران قریش کو ٹکا سا جواب دینے کے بعد “آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کو بلایا اور کہا کہ” اے بھتیجے! مجھ پر اتنا بوجھ نہ ڈالو کہ میں اٹھا نا سکوں٫ “آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم”کو اپنے چچا کی اس بات سے بہت دکھ پہنچا اور”آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے”چچا”سے فرمایا”چچا جان”اگر میرے ایک ہاتھ میں “سورج” اور ایک ہاتھ میں “چاند’ رکھ دیا جائے اور کہا جائے کہ”تبلیغ” سے”دعوتِ حق”سے باز آجاؤ٫ تب بھی میں یہ کام نہیں چھوڑ سکتا”-“ابو طالب” رو پڑے اور کہا ” بھتیجے” تم اپنا کام کئے جاؤ میں تمہارا ساتھ نہیں چھوڑوں گا-ایسے حالات میں بھی”آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے”اہل مکہ” کے سامنے”کامل اخلاق” کا نمونہ پیش کیا اور ہر ممکن تصادم سے گریز کیا٫ کیونکہ”اللّٰہ سبحانہ وتعالیٰ”کا حکم یہی تھا-

5-“حبشہ کی طرف ہجرت”

“نبوت کے پانچویں سال” کفار کے ظلم و ستم سے تنگ آئے ہوئے مسلمانوں کو”حبشہ” کی طرف ہجرت” کا حکم ملا- “حضرت جعفر بن ابو طالب”اسلام” لا چکے تھے-

انکی امارت میں”16″ مسلمانوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی” جن میں”11″ مرد اور”5″ عورتیں شامل تھیں- اس قافلے میں پہلی دفعہ “کسی نبی کی بیٹی اور داماد” نے بھی ہجرت کی- یہ خوبصورت جوڑا “حضرت عثمان غنی رضی اللّٰہُ عنہ اور انکی اہلیہ”حضرت رقیہ رضی اللّٰہ عنہا” کا تھا-“حبشہ کا بادشاہ نجاشی”نہایت رحمدل اور منصف”تھا- اس نے “کفار مکہ” کے سرداروں کو واپس کردیا اور”مسلمانوں”کو نہایت “عزت و احترام”سے اپنے ملک میں رہنے کی اجازت دی-(فتح الباری)

“حبشہ”کی طرف دوسری ہجرت”میں”86″ مرد اور”16″عورتیں٫ شامل تھیں-حبشہ( موجودہ افریقہ اور ایتھوپیا) کے بادشاہ نجاشی” نے بھی اسلام قبول کر لیا تھا- الحمدللہ (سیرہ ابنِ ہشام)

(جاری ہے٫ دسواں سبق)

حوالہ: سیرت النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم”کورس-

مرسلہ:خولہ بنت سلیمان-

“الہی گر قبول افتد زہے عزو شرف آمین”

اپنا تبصرہ بھیجیں