والدین کالڑکی کی مرضی کےبغیررشتہ یانکاح کرنا

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ!

سوال نمبر 1

اگر لڑکا  نکاح یا منگنی کرنے سے پہلے کہتا ہے کہ جس لڑکی سے میرا رشتہ ہو رہا ہے میں اس لڑکی سے ملوں گا یا بات چیت کروں گا خواہ یہ بات چیت چاہے آمنے سامنے ہو یا خط و کتابت یا فون کے ذریعے ہو ۔

اور اس سے اپنی اور اس کی دلی خواہش یعنی یہ معلوم کرنا مقصود ہے کہ وہ بھی اس رشتہ سے راضی ہے یا نہیں۔

اور کہے کہ ان باتوں کے بغیر میں نکاح نہیں کروں گا۔

سوال نمبر 2

لڑکی کے والدین نے اپنی لڑکی کا رشتہ کسی گھرانے میں طے کیا مگر یہ رشتہ لڑکی کی پسند نہیں ہے تو شریعت کا کیا حکم ہے؟

کیا والدین اس پر زبردستی کر سکتے ہیں یا لڑکی کو بھی اس میں کوئی  حق حاصل ہے یا نہیں۔

اور اگر یہ لڑکی اس رشتہ سے انکار بھی نہیں کرتی اس خوف کی وجہ سے کہ میرے گھر والوں اور رشتہ داروں میں لڑا ئی نہ ہو جائے۔

فقط 

والسلام

نوٹ

استفتاء کا جواب اگر 30 رجب تک موصول ہوجائے تو آپ جناب کی بہت مہربانی ہوگی۔

الجواب حامداً و مصلیاً

1: جب تک کسی عورت کے ساتھ نکاح نہ ہوجائے اس وقت تک وہ عورت اجنبیہ کے حکم میں ہے اگر چہ اس سے منگنی ہو چکی ہو لہذا لڑکے کا اس لڑکی سے ملاقات کرنے اور باتیں کرنے کا مطالبہ کرنا درست نہیں۔ تاہم شریعت نے یہ اجازت دی ہے کہ جس لڑکی سے نکاح کرنے کا ارادہ ہو اس کو ایک نظر دیکھ لے لیکن اس کا بھی لڑکی سے مطالبہ کرنا درست نہیں۔

اور اگر لڑکا اپنی تسلی کرنا چاہتا ہےتو پھر اپنی کسی محرم عورت کو بھیج کر لڑکی کی رضا مندی معلوم کروائی جا سکتی ہے ۔

فی اعلاء السنن:378/17

عن جابر بن عبد اللہ قال قال رسول اللہﷺ اذا خطب احدکم المراۃ فان استطاع ان ینظر الی ما یدعوہ الی نکاحھا فلیفعل فخطبت جاریۃ فکنت اتخبا لھا حتی رایت منھا ما دعانی الی نکاحھا۔

قال العبد الضعف: و حجۃ الجمھور قول جابر رضی اللہ عنہ فخطبت جاریۃ فکنت اتخبا” و الراوی اعرف بمعنی ما رواہ فدل علی انہ لا یجوز لہ ان یطلب من اولیائھا ان یحضرہ بین یدیہ لما فی ذلک من الاستخفاف بھم و لا یجوز ارتکاب مثل ذلک لامر مباح و لا ان ینظر الیھا بحیث تطلع علی رؤیتہ لھا من غیراذنها لان المراءة تستحی من ذلك وثقل نظر الاجنبی الیها علی  قلبھا لما جبلھا اللہ علی الغیرۃ وقد یفضی ذلک الی مفاسد عظیمۃ کما لا یخفی و انما یجوز لہ ان یتخبا لھا و ینظر الیھا خفیۃ۔

فی الشامیۃ: 6/370

و یظھر من کلامھم انہ اذا لم یمکنہ النظر یجوز ارسال نحو امراۃ تصف لہ حلاھا بالطریق الاولی۔

فی الدر المختار:۶/۳۶۹

و لا یکلم الاجنبیۃ الاعجوز اعطست او سلمت فیشمتھا و یرد السلام علیھا و الا لا۔

2: بالغہ عورت کا نکاح شرعاًًً صحیح ہونے کے لیے اس کی رضا مندی ضروری ہے اس کی رضا مندی کے بغیر اس کا نکاح کرنا جائز نہیں اور اگر والدین یا برادری والوں نے اس کی اجازت اور رضامندی کے بغیر اس کا نکاح کسی جگہ کر دیا تو وہ نکاح اس لڑکی کی اجازت پر موقوف رہے گا کہ اگر اس نے نکاح کی خبر ملتے ہی انکار کردیا تو یہ عقدِ نکاح ختم ہو جائے گا۔ لہذا بالغہ لڑکی کے نکاح کے بارے میں اس کی رائے نہ لینا یا اس کی رائے کو اہمیت نہ دینا اور اس کی ناراضگی اور ناپسندیدگی کے باوجود اس پر زبردستی کرنا اور جبر کرنا محض جہالت اور حرام ہے۔ لڑکی کے سرپرست پر لازم ہے کہ وہ بالغہ لڑکی کی رضامندی کے بغیر ہرگز اس کا نکاح نہ کرے اور صرف منگنی کرنے کی وجہ سے سرپرست پر لازم نہیں کہ وہ بالغہ لڑکی کی ناپسندیدگی کے باوجود اسی جگہ پر نکاح کرے جہاں منگنی ہوئی ہے کیونکہ منگنی صرف نکاح کرنے کا وعدہ ہوتاہے اس سے نکاح منعقد نہیں ہوتا۔

دوسری طرف بالغہ لڑکی کو چاہئے کہ وہ حتی الامکان والدین کی پسند کو اپنے لیے پسند کرے کیونکہ عام طور پر والدین اپنی اولا د سے محبت کرنے والے اور تجربہ کار ہوتے ہیں اور اپنی اولاد کے لیے بہتر انتخاب کرتے ہیں لیکن پوری کوشش کے باوجود اگر وہ کسی جگہ نکاح کرنے پر راضی نہیں تو والدین اور برادری والوں کی زبرستی اور دباؤ کی وجہ سے اجازت نہ دے بلکہ صاف انکار کر دے اور کہہ دے کہ میں اس سے نکاح نہیں کروں گی تاکہ وہ آئندہ کی پریشانی سے بچ سکے چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ:

“بے نکاحی (بالغہ )عورت اپنے نکاح کے معاملہ میں اپنے ولی سےزیادہ خود اختیار رکھتی ہے(مشکوۃ :ص:270)

لہذا جب سریعت نے اس کو نکاح میں اپنے اختیار کا حق دیا ہے تو اسے چاہئے کہ وہ اپنا اختیا ر استعمال کرے۔

اور اگر لڑکی نے اس نکاح سے صاف انکار کر دیا یا عقد ِ نکاح کے وقت اس سے انکار کی کوئی علامت پائی گئی مثلاً بطورِ استہزاء ہنس پڑی یا ناراضگی اور نا پسندیدگی کی وجہ سے بلند آواز سے رو پڑی تو ایسی صورت میں اس کا سکوت اجازت کے حکم میں نہیں ہوگا اور نکاح منعقد نہیں ہوگا۔

لیکن اگر لڑکی نے رضامندی ظاہر کردی مثلاً ہاں کہہ دیا اگر چہ والدین یا برادری والوں کے دباؤ میں آکر ہی کیوں نہ کی ہو اس سے نکاح منعقد ہو جائے گا۔

فی المشکوۃ: 270

عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہﷺ لا تنکح الایم حتی تستامر و لا تنکح البکر حتی تستاذن قالوا یا رسول اللہ! و کیف اذنھا قال ان تسکت۔

و فیہ ایضا: 270

عن ابن عباس رضی اللہ عنھما ان النبیﷺ قال الایم احق بنفسھا من ولیھا۔

فی ابو داؤد: 1/292

عن ابن عباس رضی اللہ عنھما قال ان جاریۃ بکرا اتت النبی ﷺ فذکرت ان اباھا زوجھا و ھی کارھۃ فخیرھا النبیﷺ ۔

فی المرقاۃ:6/299

فیہ انہ لا اجبار للولی علی البالغۃ۔

فی الدر المختار:3/58

(و لا تجبر البالغۃ البکر علی النکاح) لانقطاع الولایۃ بالبلوغ (فان استاذنھا ھو) ای الولی و ھو السنۃ (او وکیلہ او رسولہ او زوجھا) ولیھا و اخبرھا رسولہ او فضولی عدل (فسکت) عن ردہ مختارۃ (او ضحکت غیر مستھزئہ او تبسمت او بکت بلا صوت) فلو بصوت لم یکن اذنا۔

الجواب صحیح

بندہ محمد اشرف غفر اللہ لہ

27/7/1425ء

نائب مفتی دارالعلوم کراچی14

عربی حوالہ جات وپی ڈی ایف فائل میں فتویٰ حاصل کرنےکےلیےلنک پرکلک کریں :

https://www.facebook.com/groups/497276240641626/permalink/947100388992540/

اپنا تبصرہ بھیجیں