والدہ کا ایک بیٹی کو اپنی ملکیت میں موجود سونا دینے کا حکم

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اگر ماں کے پاس زیور ہو اور اور ان کے 5 بچے ہوں 2 بیٹیوں کو شادی کے وقت سونا خرید کے دے دیا تھا ،اب تیسری بیٹی کی شادی کے وقت اگر اس کو ماں اپنا سونا دے دے تو کیا یہ غلط ہے ؟ یا ساری اولادوں کو اس زیور سے برابر دینا ہوگا؟
الجواب باسم ملھم الصواب
والدین کے لیے اپنی اولاد کے درمیان ہدایا کی تقسیم میں برابری کرنا ضروری ہے، کسی کو بالکل محروم کردینا اور کسی کو بہت زیادہ دے دینا یا بلاوجہ کمی زیادتی کرنا، ناانصافی ہے ،تاہم کسی معقول وجہ کی بنا پر کمی زیادتی کا ہوجانا غلط نہیں ۔
صورت مسئولہ چونکہ والدہ نے دو بیٹیوں کو سونا دے دیا تھا ،تو اب تیسری بیٹی کو اپنی ملکیت میں موجود سونے سے بھی ہدیہ دے سکتی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
1۔”وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاماً، فقال: «أكل ولدك نحلت مثله؟» قال: لا قال: «فأرجعه»۔ وفي رواية۔۔۔قال: «فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم»”. (مشکاة المصابیح، 1/261 ، باب العطایا، ط: قدیمی)
ترجمہ: حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک دن ) ان کے والدانہیں رسول کریمﷺ کی خدمت میں لائے اور عرض کیا کہ میں نے اپنے اس بیٹے کو ایک غلام ہدیہ کیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا آپ نے اپنے سب بیٹوں کو اسی طرح ایک ایک غلام دیا ہے؟، انہوں نے کہا : ”نہیں “، آپ ﷺ نے فرمایا: تو پھر (نعمان سے بھی ) اس غلام کو واپس لے لو۔ ایک اور روایت میں آتا ہے کہ ۔۔۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو۔
2۔”عَنِ الشَّعْبِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ النُّعْمَانَ، عَلَى مِنْبَرِنَا هَذَا يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” سَوُّوا بَيْنَ أَوْلَادِكُمْ فِي الْعَطِيَّةِ، كَمَا تُحِبُّونَ أَنْ يُسَوُّوا بَيْنَكُمْ فِي الْبِرِّ۔“( شرح معانی الآثار:کتاب الھبہ4/ 86)
ترجمہ:حضرت شعبیؒ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت نعمان بن بشیرؓسے سنا ہمارے اس منبر پر، فرمارہے تھے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ برابری کرو تم اپنے اولاد کے درمیان عطیہ میں جیساکہ تم پسند کرتے ہو کہ وہ برابری کرے تمہارے ساتھ نیکی میں ۔
3۔ و في هذا الحديث: أن هبة بعض الأولاد دون بعض صحيحة، و أنه إن لم يهب الباقين مثل هذا استحبّ رد الأول. قال أصحابنا: يستحب أن يهب الباقين مثل الأول فإن لم يفعل استحبّ رد الأول و لايجب، و فيه جواز رجوع الوالد في هبته للولد، والله أعلم.”
(شرح النووی علی مسلم:کتاب الھبات:باب كراهةتفضیل بعض الأولاد في الھبة،11/ 66۔67،ط:داراحیاء التراث العربی)
4۔”أقول: حاصل ما ذكره في الرسالة المذكورة أنه ورد في الحديث أنه ﷺ قال: «سووا بين أولادكم۔۔۔الخ ، فالعدل من حقوق الأولاد في العطايا و الوقف عطية فيسوي بين الذكر والأنثى، لأنهم فسروا العدل في الأولاد بالتسوية في العطايا حال الحياة. وفي الخانية ولو وهب شيئا لأولاده في الصحة، وأراد تفضيل البعض على البعض روي عن أبي حنيفة لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل في الدين وإن كانوا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف أنه لا بأس به إذا لم يقصد الإضرار وإلا سوى بينهم وعليه الفتوى۔“
(الدر المختار وحاشیہ ابن عابدين: کتاب الوقف مطلب في المصادفة علی النظر4/ 444،ط:سعید)
و اللہ سبحانہ اعلم
قمری تاریخ:20/جمادی الاولیٰ/۱۴۴۴ھ
شمسی تاریخ:15/دسمبر/2022ء

اپنا تبصرہ بھیجیں