1۔ رسول اکرم ﷺ نے ہر قل شاہ روم کی طرف جب حضرت دحیہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں دعوت اسلام کا خط روانہ کیا تو ہر قل نے اسے پڑھنے کے بعد حضور ﷺ کے حالات کی تحقیق کے لیے عرب تاجروں کو حاضر کرنے کا حکم دیا۔ ہر قل کے سامنے جو عرب تاجر حاضر ہوئے ،ان میں ابو سفیان اور ان کے کچھ رفقاء بھی تھے ، ابو سفیان اس وقت تک اسلام نہیں لائے تھے انہوں نے یہ سوچ کرکہ واقعہ معراج ہی ایک ایسا نکتہ point ہے جسے سن کر ہر قل حضرت محمد ﷺ کو جھوٹا مان لے گا ، ہر قل کے سامنے واقعہ معراج رکھ دیا اور کہا کہ یہ مدعی نبوت تو یہ کہتے ہیں کہ میں نے رات کے مختصر سے وقت میں مسجد حرام سے بیت المقدس تک کا سفر کیا اور اسی مختصر وقت میں دوبارہ مکہ واپس آگیا۔ آپ خود ہی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ ایسے دعوے کرنے والا شخص ( معاذ اللہ) سچا کیسے ہوسکتا ہے ؟
اسی تاریخی دستاویزکا ایک بقیہ حصہ مشہور تاریخ نگار علامہ واقدی کی زبانی ملاحظہ فرمائیے !
“ایلیاء ( بیت المقدس) کا سب سے بڑ اعالم اس وقت شاہ روم ہر قل کے سرہانے کھڑا تھا۔ اس نے بیان کیا کہ میں اس وقت رات کو سوتا نہیں تھا جب تک کہ بیت المقدس کے سارے دروازے بند نہ کرلوں ۔ اس رات میں نے حسب عادت سارے دروازے بند کردیے لیکن ایک دروازہ مجھ سے بند نہ ہوسکا ۔ میں نے اپنے عملہ کے لوگوں کو بلالیا، ان سب نے مل کر کوشش کی مگر وہ ان سے بھی بند نہ ہوسکا۔ دروازے کے کواڑ اپنی جگہ سے حرکت نہ کرسکے ۔ ایسے معلوم ہوتا ہے تھا جیسے کسی پہاڑ کو ہلارہے ہیں ۔ میں نے عاجز ہو کر نجاروں ( کار پینٹر ز ) کو بلوایا۔ا نہوں نے دیکھ کر کہا : ان کواڑوں کے اوپر دروازوں کا بوجھ پڑگیا ہے،اب صبح سے پہلے اس کے بند ہونے کی کوئی تدبیر نہیں ، صبح ہم دیکھیں گے کہ اس کے لیے کیا کیاجائے ۔ میں مجبور ہوکر لوٹ آیا ، دونوں کواڑ اسی طرح کھلے رہے۔ صبح ہوتے ہی میں پھر اس دروازے پر پہنچا تو دیکھا کہ دروازہ مسجد کے پاس ایک چٹان میں روزن ( سوراخ ) کیا ہوا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہاں کوئی جانور باندھا گیا ہے ۔اسی وقت میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ آج اس دروازے کو اللہ تعالیٰ نے شاید اس لیے بند ہونے سے روکا ہے کہ کوئی نبی یہاں آنے والے تھے اور اس رات انہوں نے ہماری مسجد میں نماز پڑھی ۔”
( معارف القرآن : بتصرف یسیر : 5/424 فرید بک ڈپو، تفسیر ابن کثیر :4/ 115)
2 سفر معراج سے واپسی کے بعد صبح جب حضور ﷺ نے رات کا سارا ماجرا مشرکین مکہ کے سامنے بیان کیا تو پہلے تو انہوں نے بے حد مذاق اڑایا اور پھر راستے کی نشانیاں پوچھنے لگے ۔ حضور اکرم ﷺ نے ایک نشانی اور شہادت یہ بیان فرمائی : ” اس کی نشانی یہ ہے کہ میں جب شام کی طرف بھاگا جارہا تھا تو فلاں وادی میں فلاں قبیلے کے قافلے پر گزرا تھا،ان کا ایک اونٹ بھاگ گیاتھا۔ میں نے ان کو اس کی نشاندہی کی تھی ۔ سفر سے واپسی کے وقت ضجناں میں فلاں قبیلے کے قافلے پر پہنچا تو میں نے لوگوں کو سوتا پایا، ان کے ایک برتن میں پانی تھا اور انہوں نے اس کو ڈھانک رکھاتھا، میں نے ڈھکنا اتار کرا س کا پانی پیا پھر اسی طرح برتن ڈھانک دیا۔ اس کی نشانی یہ بھی ہے کہ اس کا قافلہ اب بیضاء سے ثنیۃ التنعیم کی طرف آرہا ہے ، سب سے آگے ایک خاکی رنگ کا اونٹ ہے ، اس پر دو بورے لدے ہوئے ہیں : ایک کالا اور دوسرا دھاری دار ہے ۔ لوگ ثنیۃ التنعیم کی طرف دوڑے تو اس اونٹ سے پہلے کوئی اونٹ نہیں ملا جیسا کہ آپ ﷺ نے فرمایاتھا ۔ دوسروں سے بھی پوچھا جن کے اونٹ کا بھاگنا بیان فرمایاتھا،یہ لوگ مکہ آچکے تھے انہوں نے کہا :” واقعی صحیح فرمایا ،ا س وادی میں ہمارا اونٹ بھاگ گیاتھا، ہم نے ایک شخص کی آواز سنی کہ وہ ہمیں اونٹ کا بتارہا ہے۔ یہاں تک کہ ہم نے اونٹ کو پکڑ لیا۔” ( جدید سیرت النبی :1 359، مولانا اسحاق ملتانی )