حضور ختم الرسل ﷺ نے شعبان کو اپنا مہینہ قرار دیا ہے، شعبان کے لیے برکت کی دعا فرمائی ہے اور اس ماہ کثرت سے روزے رکھے ہیں ۔ ماہ شعبان سے متعلق احادیث کے مجموعے سے شعبان کے یہ آداب نمایاں طور پر واضح ہوتے ہیں :
1۔ماہ شعبان کا چاند دیکھنے کا خصوصی اہتمام ۔ (ترمذی)
2۔یکم شعبان سے 15 شعبان تک ہر دن کا روزہ بلا کسی ادنیٰ کراہت کے مستحب ہے۔ 16 شعبان سے 28 شعبان تک کے ایام میں روزہ رکھنے اور نہ رکھنے دونوں قسم کی احادیث وارد ہوئی ہیں ۔ علما نے دونوں قسم کی احادیث کی تشریح اس طرح کی ہے کہ 16 شعبان سے 28 شعبان تک کا روزہ خلاف اولیٰ ہے یعنی روزہ نہ رکھنا بہتر ہے اگر کوئی رکھ لے تو گناہ نہیں ۔ البتہ 28 شعبان سے روزہ رکھنا سخت منع ہے اور ناجائز ہے ۔
3۔ شعبان کی پندرہویں رات کے بارے میں 17 صحابہ سے احادیث سے منقول ہے۔ ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس رات اللہ جل شانہ آسمان دنیا پر خصوصی نزول فرماتے ہیں، آئندہ سال کی تمام اموات طے کردی جاتی ہیں ( البتہ یہ اموات فرشتوں کے حوالے اس رات نہیں کی جاتیں بلکہ شب قدر میں کی جاتی ہیں ) جنت کو آراستہ کیاجاتا ہے ، دعائیں قبول ہوتی ہیں اور کثرت سے مغفرت کی جاتی ہیں ) 15 شعبان کی انہیں خصوصیات کی بنا پر نبی کریم ﷺ نے اس رات خصوصی نوافل ادا کیے ہیں اور سجدوں میں لمبی لمبی دعائیں مانگی ہیں۔ اسی وجہ سے اکثر فقہا نے اس رات کی عبادت کو مستحب قرار دیا ہے ۔ البتہ چونکہ حضور ﷺ نے یہ عبادات اپنے گھر میں ادا کی تھیں ۔ اس لیے 15 شعبان کی رات اپنے گھروں میں عبادت کرنی چاہیے ، اس کے لیے مساجد میں خصوصی اجتماعات منعقد کرنا، اجتماعی طور پر صلوۃ التسبیح کی جماعت کرانا، عورتوں کا کسی جگہ جمع ہو کر صلوۃ التسبیح وغیرہ نوافل جماعت سے ادا کرنا، یہ سب باتیں کئی شرعی وجوہ سے خلاف سنت اور مکروہ ہیں ۔
4۔15 شعبان کی رات قبرستان جانا حدیث سے ثابت اور مستحب ہے ۔ لیکن یہاں یہ بات مد نظر رہے کہ کسی بھی مستحب کو اگر عمل یا عقیدہ کے اعتبار سے ایسا لازم سمجھ لیاجائے کہ اس کو چھوڑنے والے پر طعن و ملامت کی جائے تو وہ بجائے مستحب کے بدعت بن جاتا ہے ۔
5۔ ایک ضعیف حدیث میں پندرہ شعبان کے دن روزہ رکھنے کا حکم وارد ہوا ہے ۔ اس حدیث کی وجہ سے اس دن کا روزہ مستحب ہے یا نہیں ؟ اس میں علماء کا اختلاف ہے ۔ صحیح یہ ہے کہ اس دن روزہ رکھنا مستحب ہے ۔ کیونکہ اکثر فقہا کے نزدیک ضعیف حدیث سے استحباب ثابت ہوتا ہے ۔
Hey very interesting blog!