التحیات کا پس منظر

السؤال:هل ذكرت التحيات في قصة المعراج؟

ما صحة قصة أن لفظ: (التحيات) كانت عندما عرج النبي صلى الله عليه وسلم إلى السماء، ووصل سدرة المنتهى، أن الرسول صلى الله عليه وسلم قال: (التحيات لله والصلوات والطيبات، فقال الله: السلام عليك أيها النبي ورحمة الله وبركاته، فقالت الملائكة: السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين)، فهذه القصة تدرس للأطفال في المدارس لتساعدهم على حفظ التحيات؟

الجواب

وغاية ما وقفنا عليه في هذه القصة:

ما تنقله بعض كتب التفسير عند قوله تعالى: {سَلامٌ قَوْلاً مِنْ رَبٍّ رَحیم} (یـس/58)، فقالوا: “يشير إلى السلام الذي سلمه الله على حبيبه عليه السلام ليلة المعراج إذ قال له: “السلام عليك أيها النبي ورحمة الله وبركاته”، فقال في قبول السلام: “السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين” انتهى.

انظر “روح المعاني” للآلوسي (3/38).

وما يذكره بعض شراح السنة عند الكلام على حديث التشهد، ذكره بدرالدين العيني في “شرح سنن أبي داود” (4/238)، ونقله الملا علي القاري في “مرقاة المفاتيح” عن ابن الملك، وكذلك تذكره هذه القصة في بعض كتب الفقه، مثل حاشية “تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق” (1/121)، وفي بعض كتب الصوفية كالقسطلاني والشعراني .

 کیا “التحیات” معراج میں اللہ اور اسکے رسول کے درمیان کوئی گفت و شنید ہے؟

تحقیق:

اس واقعے کی کوئی بنیاد نہیں ہے اور نہ کوئی سند ہے، ہمیں ثابت شدہ احادیث میں اس سے متعلق کوئی نام و نشان نہیں ملا، لیکن واقعۂ معراج مکمل تفصیلات کے ساتھ صحیح بخاری و صحیح مسلم سمیت دیگر کتابوں میں ثابت شدہ ہے، اس کے باوجود نماز کے تشہد سے متعلق ایسی کوئی بات ان میں ذکر نہیں کی گئی، نیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ تشھد صحابہ کرام کو سکھایا تو اس وقت بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تفصیلات بیان نہیں فرمائیں۔

چنانچہ

صحیح بخاری: (6328) اور صحیح مسلم: (402( میں التحیات سکھانے کا ذکر ہے لیکن اس واقعے کا ذکر کہیں بھی نہیں، لہذا یہ ساری تفصیلات بھی من گھڑت ہیں.

《واللہ اعلم》

《کتبه: عبدالباقی اخونزادہ》

0333-8129000

7 رمضان المبارک 1438

اپنا تبصرہ بھیجیں