بچہ والدہ کے نیچے  دب کر مرگیا تو دیت کا کیاحکم ہے

دارالعلوم کراچی فتویٰ نمبر:70

صورت مسئولہ میں اتنے عرصے کے بعد اگر مذکورہ خاتون کو شکوک وشبہات  ہورہے ہوں تو ان  شکوک وشبہات کا اعتبار نہیں  ہے،  اس کی طرف دھیان نہ کرے لیکن اگر یقین  یا غالب گمان ہو اور اب  شرعی مسئلہ جاننے کی فکر ہورہی ہے  تو ا س کا حکم  یہ ہے کہ اگر واقعۃً بچہ ماں کے نیچے  دب  کر فوت ہوا ہے، تو یہ صورت  “قتل جاری مجری ء خطا ” کی ہے  ،ا س کاحکم یہ ہے کہ  مذکورہ  خاتون پر  کفارہ  اور دیت دونوں لازم ہیں  ،و اضح رہے کہ مذکورہ صورت میں چونکہ  خاتون  نے خود  قتل کا اقرا ر  کیاہے اس لیے دیت مذکورہ  خاتون کے اپنے مال  میں واجب ہوگی  ، عاقلہ  پرواجب نہیں  ہوگی ۔ا ور دیت  تین سال کے اندر اندر ادا کرنا ضروری ہے صورت مسئولہ میں چونکہ تین سال سے زیادہ عرصہ  گزرچکا  ہے لہذا اب فوری طور  پر دیت ادا کرنا لازم ہے، البتہ  اگر بچے  کا والد دیت معاف کردے تو دیت ساقط ہوجائے گی ۔

شرعاً دیت کی  تین صورتیں ہیں :

الف :  دس ہزار درہم چاندی  یعنی  618ء 30 کلو گرام چاندی  ، یااس کی قیمت  ، اور تولہ کے حساب سے یہ  مقدار  2625 تولہ بنتی ہے ، یا اس کی قیمت  ادا کرے۔

 (ب)  ایک ہزار دینارسونا، یعنی  374ء4کلو سونا ، جو مساوی  ہے  375 تولہ سونے ، یا اس کی قیمت ۔

(ج)  سو اونٹ  یا اس کی قیمت  ۔ مذکورہ  عورت کو اختہار ہے  تینوں قسموں میں سے جس قسم سے دیت ادا کرناچاہے  کرسکتی ہے  ۔ ( ماخذہ التبویب  1406،8 )

6)  دیت کی رقم مقتول بچہ کے ترکہ میں شامل ہو کر والدہ کے علاوہ  اس کے دیگر  ورثاء ( جو مقتول کے قتل کے و قت زندہ تھے )  کے درمیان  میراث  کے شرعی اصولوں کے مطابق ہوگی ۔

7)  مذکورہ خاتون  کو جس سے بچہ قتل ہوگیا ہے بچے کی میراث میں سے شرعاًکچھ بھی نہیں ملے گا۔

8) اگر مقتول  بچے کا والد حیات ہو تو اس کے معاف کرنے سے  دیت معاف   ہوجائے گی  ، اگروہ زندہ نہ ہو تو دیگر تمام ورثاء عاقل اور بالغ ہوں اور وہ اپنی رضامندی  اور خوشدلی  سے دیت معاف کرنا چاہیں  تو کرسلتے  ہیں ایسی صورت  میں ساری دیت معاف   ہوجائے گی اور اگر بعض  ورثاء  معاف  کریں تو صرف  ان کے حصہ کے بقدر دیت ساقط  ہوگی  دیت کی بقایا  مقدار ادا کربا لازم ہوگا ۔

9،10)  مذکورہ خاتون ہر دیت  کے ساتھ لفارہ بھی لازم   ہے جس کی ترتیب یہ ہے کہ ایک مسلمان  غلام کو آزاد کرنا چونکہ  آج کل غلاموں  کا وجود نہیں ہے اس لیے  اب دو ماہ مسلسل   روزے رکھنے کی استطاعت  نہیں رکھتی اور آئندہ  بھی اتنی  قوت  آنے کی امید نہیں ، تو ایسی  صورت  میں وہ آخری  عمر میں  کفارہ  کے ادئیگی  کی وصیت  کرلے  ، تو ان کی وفات   کےبعد تجہیز وتکفین  اور قرضوں  کی ادائیگی  کے بعد جو ترکہ  بچے گا،ا س کی ایک تہائی  حصہ تک اس وصیت  پر عمل کیاجائے گا، اگر دیت  کی مقدار  ایک  تہائی  حصہ سے بڑھ  گئی  تو اس زائد مقدار  میں وصیت   پر عمل کرنا ورثاء کے ذمہ شرعا لازم نہیں ہوگا۔

دارالافتاء جامعہ  دارالعلوم کراچی

عربی حوالہ جات اور مکمل فتویٰ   پی ڈی ایف فائل  میں حاصل کرنے کے لیے دیے گئے لنک پر کلک کریں :

https://www.facebook.com/groups/497276240641626/497993517236565/

اپنا تبصرہ بھیجیں