حضرت ہارون ؑ بن عمران حضرت موسیٰ ؑ کے بڑے بھائی تھے یہ عمر میں آپ ؑ سے تین سال بڑے ۔ زوجہ محترمہ کا نام الشبع تھا۔ اور ان سے آپ ؑ کے چار فرزند پیدا ہوئے ۔
حضرت ہارون علیہ السلام کا زمانہ پیدائش :۔
یہ وہ زمانہ تھا جب شاہان مصر کا لقب ” فرعون ” ہو ا کرتا تھا۔ فراعنہ کے اکتیس (31) خاندان مصر پر حکمران رہے ۔ یہ دور تین ہزار سال قبل مسیح سےشروع ہوکر 332 قبل از مسیح تک کا ہے ۔
حضرت ہارون ؑ کے زمانہ کا فرعون ” عمیس ثانی ” کا بیٹا ” مرتفاح ” ہے ۔جس کا دور حکومت 1293 ق م سے 1186 ق م کا ہے ۔
ایک تحقیق کے مطابق مصری دارالآثار کے مصور اور اثری وحجری تحقیق کے بہت بڑے عالم “احمد یوسف احمد افندی نے ایک مضمون لکھا ہے ۔ جس کا خلاصہ نجاد نے قصص الانبیاء میں نقل کیا ہے ۔
” مصری آثارقدیمہ نے اس بات کا پتہ لگایا ہے کہ جس فرعون نے بنی اسرائیل کے ساتھ عداوت کا معاملہ کیا ا س نے بنی اسرائیل سے دو شہروں رعمیس اور فیثوم کی تعمیر میں خدمت کی ۔
اور کھدائی کے بعد ان دوشہروں کا پتہ لگ چکاہے ایک کتبہ سے ان کے نام فیثوم اور رعمیس معلوم ہوئے ۔ یہ دونوں شہر مصر کے بہترین حفاظتی قلعے تھے “
ان تمام باتوں کا مقصد یہ وہی حضرت موسیٰ ؑ اور ہارون ؑ کے زمانے کا فرعون “رعمیس دوم ” تھا جس میں آپ دونون پیغمبروں نے پرورش پائی ۔ رعمیس دوم اسی زمانے میں بہت بوڑھا ہوچکاتھا لہذا اس نے اپنی زندگی ہی میں اپنے بڑے بیٹے”مرنفتاح ” کو حکومت سونپ دی ، مرنفتاح ہی وہ فرعون ہے جس کو حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت ہارون ؑ نے اسلام کی دعوت دی یہ مصر کے حکمرانوں کا انیسواں ( 19 )خاندان تھا ۔
( بحوالہ قصص القرآن جلد اول )
فرعون کا خواب :
فرعون نے ایک بھیانک خواب دیکھا جس کی تعبیر نجومیوں نے بتائی کہ ” تیری حکومت کا زوال ایک اسرائیلی لڑکے کے ہاتھ ہوگا” فرعون نے اس خوف سے یہ حکم دیا کہ ا سرائیلی لڑکوں کوقتل کردیاجائے اور لڑکیوں کو چھوڑڈیاجائے پھر اسی خوف سے کہ آئندہ اسی کی غلامی کون کرے گا ۔ حکم دیاکہ ایک سال لڑکوں کو زندہ رکھاجائے اوردوسرے سال ختم کردیاجائے ، چنانچہ جس زمانے میں بچوں کو چھوڑدینے کا حکم تھا اس زمانے میں حضرت ہارون علیہ السلام پیدا ہوئے ۔
قرآن میں ذکر :۔
قرآن کریم میں حضرت ہارون علیہ السلام کا ذکر حضرت موسیٰ ؑ کے ساتھ بے شمار مقامات میں آیاہے ۔
خوش بیان آپ ؑ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے زیادہ تھے اور انہیں کی درخواست پر آپ ؑ کو پیغمبری عطا ہوئی ۔ تاکہ فرعون کے دربار میں تبلیغی تقریری پوری فصاحت کے ساتھ کرسکیں
وَوَهَبْنَا لَهٗٓ اِسْحٰقَ وَيَعْقُوْبَ ۭ كُلًّا هَدَيْنَا ۚ وَنُوْحًا هَدَيْنَا مِنْ قَبْلُ وَمِنْ ذُرِّيَّتِهٖ دَاوٗدَ وَسُلَيْمٰنَ وَاَيُّوْبَ وَيُوْسُفَ وَمُوْسٰي وَهٰرُوْنَ ۭوَكَذٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِيْنَ 84ۙ (سورۃا لانعام )
اور ہم نے ابراہیم کو اسحاق (جیسا بیٹا) اور یعقوب (جیسا پوتا) عطا کیا۔ (ان میں سے) ہر ایک کو اہم نے ہدایت دی، اور نوح کو ہم نے پہلے ہی ہدایت دی تھی، اور ان کی اولاد میں سے داؤد، سلیمان، ایوب، یوسف، موسیٰ اور ہارون کو بھی۔ اور اسی طرح ہم نیک کام کرنے والوں کو بدلہ دیتے ہیں۔
وَلَقَدْ مَنَنَّا عَلٰي مُوْسٰى وَهٰرُوْنَ ١١٤ ( سورۃ الصفت )
اور بیشک ہم نے موسیٰ اور ہارون پر بھی احسان کیا۔
سَلٰمٌ عَلٰي مُوْسٰى وَهٰرُوْنَ ١٢0 ( سورۃ الصفت )
(کہ وہ یہ کہا کریں کہ) سلام ہو موسیٰ اور ہارون پر !
حضرت ہارون علیہ السلام کےلیے نبوت کی سفارش :۔
جب طویٰ کی مقدس وادی میں حضرت موسیٰ ؑ نبوت سے سرفرازکیے جارہے تھے تو حضرت موسیٰ ؑ نے اللہ تعالی سے اپنے بھائی ھارون ؑ کو اپنا زور بازو بنائے اور نبوت عطا کرنے کی درخواست س کی ۔جو قبول کرلی گئی ۔ کیونکہ موسیٰ ؑکی زبان میں بچپن ہی سے ہکلا پن تھا آپ ؑ کو بولنے میں دشواری تھی جبکہ حضرت ہارون ؑ فطری فصاحت وبلاغت لسانی کے مالک تھے ۔ا س طرح ھارون ؑ کو بھی نبوت عطا ہوئی ۔
وَاجْعَلْ لِّيْ وَزِيْرًا مِّنْ اَهْلِيْ 29
اور میرے لیے میرے خاندان ہی کے ایک فرد کو مددگار مقرر کردیجیے۔
هٰرُوْنَ اَخِي 30
یعنی ہارون کو جو میرے بھائی ہیں۔
اشْدُدْ بِهٖٓ اَزْرِيْ 31
ان کے ذریعے میری طاقت مضبوط کردیجیے۔
وَاَشْرِكْهُ فِيْٓ اَمْرِيْ 32
اور ان کو میرا شریک کار بنا دیجیے۔
كَيْ نُسَبِّحَكَ كَثِيْرًا 33
تاکہ ہم کثرت سے آپ کی تسبیح کریں۔
قَالَ قَدْ اُوْتِيْتَ سُؤْلَكَ يٰمُوْسٰى 36
اللہ نے فرمایا : موسیٰ ! تم نے جو کچھ مانگا ہے تمہیں دے دیا گیا۔ ( سورہ طہٰ )
پھر دونوں بھائیوں کو فرعون کے پاس جانے کا حکم ہوا
اِذْهَبْ اَنْتَ وَاَخُوْكَ بِاٰيٰتِيْ وَلَا تَنِيَا فِيْ ذِكْرِيْ 42
تم اور تمہارا بھائی دونوں میری نشانیاں لے کر جاؤ، اور میرا ذکر کرنے میں سستی نہ کرنا۔ (١٩)
اِذْهَبَآ اِلٰى فِرْعَوْنَ اِنَّهٗ طَغٰى 43
دونوں فرعون کے پاس جاؤ، وہ حد سے آگے نکل چکا ہے۔
دونوں بھائی فرعون کے دربار پہنچے اور خدائی پیغام اس کو پہنچایا کہ اللہ وحدہ لاشرک لہ کی عبادت کرو اور بنی اسرائیل پر ظلم وستم نہ کرو مگر وہ نہ مانا۔ اور مزید سرکشی پر اترآیا ۔ حضرت موسیٰؑ نے اللہ تعالیٰ کے عطاکردہ معجزات اک ذکر کیا تا کہ حق وصداقت کو قبول کرے ۔ اس نے آپ ؑ کو جادوگر قرار دیا اور دربار کے بڑے بڑے جادوگروں کو جمع کر کے مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ مگر حق کے آگے باطل کی نہ چل سکی اور مقابلے کے بعد تمام جادوگروں نے حضرت موسیٰ ؑ کے حق میں فیصلہ دیا اور دعوت حق کو قبول کیا۔ جب فرعون نے دیکھا کہ جادوگر اسلام لاچکے ہیں اور تمام لوگ حضرت موسیٰؑ اور حضرت ہارون ؑ کا اچھے اوصاف کے ساتھ ذکر کررہے ہیں تو اس نے دھمکیاں دیں فرعون کے مظالم مزید بڑھ گئے تو اللہ نے موسیٰ ؑ کو وہاں سے نکل جانے کا حکم دیا۔حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت ہارون ؑ بنی اسرائیل کو لے کر بحر قلزم کی طرف چل پڑے ۔
سورۃ الشعراء میں ہے : فَاَوْحَيْنَآ اِلٰى مُوْسٰٓي اَنِ اضْرِبْ بِّعَصَاكَ الْبَحْرَ ۭ فَانْفَلَقَ فَكَانَ كُلُّ فِرْقٍ كَالطَّوْدِ الْعَظِيْمِ 63
چنانچہ ہم نے موسیٰ کے پاس وحی بھیجی کہ اپنی لاٹھی سمندر پر مارو۔ بس پھر سمندر پھٹ گیا، اور ہر حصہ ایک بڑے پہاڑ کی طرح کھڑا ہوگیا۔ (١٥)
موسیٰ ؑ نے دریا پرعصا مارا تو خشک راستہ نکل آیا اور بنی اسرائیل اس پر چلتی ہوئی دریا پار چلی گئی مگر جب فرعون کا لشکر اسی راستے پر چلا تو دریا آپس میں مل گیا اور یوں اللہ نے فرعون کے تمام لشکر کو غرقاب کردیا اور بنی اسرائیل کو فرعون سے نجات ملی ۔ان تمام حالات میں حضرت ہارون ؑ اپنے بھائی کے ساتھ رہے ۔
گوسالہ پرستی کا واقعہ :۔
اب موسیٰ ؑ کو شریعت ملنے کا وقت آیا اور وحی الٰہی سے کوہ طور پر پہنچنے کو کہاگیا۔ا یک ماہ کی مدت تھی مگر بعد میں دس دن اور بڑھادیے گئے ۔ حضرت موسیٰ ؑنے جب کوہ طور پر جانے کا ارادہ کیاتو بنی اسرائیل پر اپنا خلیفہ ونائب حضرت ہارون ؑ کو مقرر کیا جو معززومکرم تھے اللہ نے ان کو آپ کا وزیر مقرر کیاتھا ۔
وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَآ ۡ اُولٰىِٕكَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ ۚ هُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ 42 ( سورۃا لاعراف )
اور جو لوگ ایمان لائے ہیں اور انہوں نے نیک عمل کیے ہیں (یاد رہے کہ) ہم کسی بھی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ کی تکلیف نہیں دیتے۔ (٢٣) تو ایسے لوگ جنت کے باسی ہیں۔ وہ ہمیشہ اس میں رہیں گے۔
اسی اثناء میں ایک عجیب وغریب واقعہ پیش آیا۔ حضرت موسیٰ ؑ کے طور پر جانے کے بعد واپسی کی مدت ایک ماہس ے زیادہ ہوگئی تو ایک شخص ( سامری) نے فائدہ اٹھایا اور بنی اسرائیل نے سامری کی قیادت میں ایک بچھڑا بنایا اور اسے معبود منتخب کر کےپرستش شروع کردی ۔
حضرت موسیٰ ؑ جب واپس آئے تو غیض وغضب میں کانپنے لگے اور ہارون ؑ سے اس کے ابرے میں پوچھا ۔ قرآن مجید نے اس اہتمام سے آپ ؑکی پوری صفائی پیش کی ۔
وَلَقَدْ قَالَ لَهُمْ هٰرُوْنُ مِنْ قَبْلُ يٰقَوْمِ اِنَّمَا فُتِنْتُمْ بِهٖ ۚ وَاِنَّ رَبَّكُمُ الرَّحْمٰنُ فَاتَّبِعُوْنِيْ وَاَطِيْعُوْٓا اَمْرِيْ ( سورہ طہٰ)
اور ہارون نے ان سے پہلے ہی کہا تھا کہ : میری قوم کے لوگو ! تم اس (بچھڑے) کی وجہ سے فتنے میں مبتلا ہوگئے ہو، اور حقیقت میں تمہارا رب تو رحمن ہے، اس لیے تم میرے پیچھے چلو اور میری بات مانو ۔
حضرت ہارون ؑ کا دامن شرک سے پاک ہے۔ گو سالہ بنانا اور اس کی ترغیب دینا سامری کا کام تھا نہ کہ حضرت ہارون ؑ جیسے برگزیدہ نبی کا ، انھوں نے تو سختی کے ساتھ بنی اسرائیل کو اس ناپاک حرکت سے باز رکھنے کی کوشش کی ۔
حضتے ہارون ؑ کیوفات :۔
وادی سینا کے مقدس میدان میں بنی اسرائیل موجود تھے کہ خدا کا حکم ہواکہ پوری قوم ارض مقدس میں داخل ہو اورواہں کے ظالم وجابر حکمرانوں س کو نکال کر عدل وانصاف قائم کرو۔
مگر بنی اسرائیل نےوہاں کے زبردست جسامت والے س لوگوں کو دیکھتے ہوئے داخل ہونے سے انکار کردیا ۔اس انکار پر اللہ نے انہیں سزادی اور وہ اسی سر زمین پر بھٹکتے پھرے۔ حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت ہارون ؑ ان کے ساتھ تھے تاکہ آنے والی نسل کی رشد وہدایت کریں اس دوران حضرت ہارون ؑکا پیغام اجل آپہنچا ۔ آپ ؑ کوہ طور پر عبادت الٰہی میں مصروف تھےکہ آپ ؑ کا انتقال ہوگیا۔
توریت میں اسی واقعہ کا ذکر آتاہے۔
” تو ہارون ؑ اور اس کے بیٹے الیعرز کو اپنے ساتھ لے کر کوہ طور کے اوپر جا اور ہارون ؑ کے لباس کو اتار کر اسی کے بیٹے الیعذر کو پہنادینا کہ ہارون ؑ وہیں وفات پاکر س اپنے لوگوں میں جا ملے گا ۔”
( گنتی باب 2 آیات 22۔29)
تحریر:اسماء اہلیہ فاروق