حضرت اسماعیل علیہ السلام 

 تحریر :اسماء اہلیہ  فاروق

اسماعیل  علیہ السلام کی ولادت :۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام  نے اللہ  کی بارگاہ میں  نیک اولاد کی دعا کی  ۔

 رَبِّ هَبْ لِيْ مِنَ الصّٰلِحِيْنَ  ١٠٠؁ ( سورۃا لصٰفٰت)

میرے پروردگار ! مجھے ایک ایسا بیٹا دیدے جو نیک لوگوں میں سے ہو۔

 اللہ کی طرف سے بشارت ہوئی  ۔

فَبَشَّرْنٰهُ بِغُلٰمٍ حَلِـيْمٍ  ١٠١؁ ( سورۃا لصٰفٰت )

چنانچہ ہم نے انہیں ایک بردبار لڑکے کی خوشخبری دی۔

یہ دعا اس طرح قبول ہوئی  کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام  کی دوسری بیوی  حضرت  ہاجرہ علیہا السلام  حاملہ ہوئیں ۔

تورات  میں ہے : اور ہاجرہ  ابرام کے لیے بیٹا جنی  اور ابرام نے  اپنے اس بیٹے کا نام  جو ہاجرہ  جنی اسماعیل رکھا اور جب   ہاجرہ ابرام  کے لیے ہاجرہ سے اسماعیل پیدا ہوا تب ابرام چھیاسی برس کا تھا ۔

  ( باب 16 آیات 15۔16 )

حضرت اسماعیل علیہ السلام  کی ال ولادت  1837 ق م :

تورات کے مطابق عمر 137  سال پائی : بارہ بیٹے ہوئے ۔ تورات میں ان کے نام درج ہیں اور یہ تصریح  بھی کہ  ” یہ اپنی امتوں کے باری رئیس تھے ۔”

 ( پیدائش : 12:25)

اور ا ن سے بارہ  نسلیں چلیں عرب کا مشہور  عالی نسب  قبیلہ قریش آپ ؑ ہی کی نسل سے ہے  ۔ آپ ؑ رسول اللہ ﷺ کے مورث اعلیٰ  بھی ہوئے . اوروادی مکہ میں آباد ہوئے ۔

قرآن مجید نے آپ کے تین اوصاف صراحت سے بیان کئے ہیں ۔

1۔ تعمیر  کعبہ میں  آپ ؑ بھی اپنے والد کے ہمراہ شریک رہے ۔

2۔ آپ ؑ وعدہ کے بڑے سچے تھے ۔

3۔لوگوں کو نماز وزکوۃ کا حکم  دیتے  رہتے تھے ۔

  سورۃ مریم میں ہے :

وَلَقَدْ صَرَّفْــنَا فِيْ هٰذَا الْقُرْاٰنِ لِلنَّاسِ مِنْ كُلِّ مَثَلٍ  ۭ وَكَانَ الْاِنْسَانُ اَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا  54؀

اور ہم نے لوگوں کے فائدے کے لیے اس طرح قرآن میں طرح طرح سے ہر قسم کے مضامین بیان کیے ہیں اور انسان ہے کہ جھگڑا کرنے میں ہر چیز سے بڑھ گیا ہے۔

وَمَا مَنَعَ النَّاسَ اَنْ يُّؤْمِنُوْٓا اِذْ جَاۗءَهُمُ الْهُدٰى وَيَسْتَغْفِرُوْا رَبَّهُمْ اِلَّآ اَنْ تَاْتِيَهُمْ سُنَّةُ الْاَوَّلِيْنَ اَوْ يَاْتِيَهُمُ الْعَذَابُ قُبُلًا  55؀

اور جب لوگوں کے پاس ہدایت آچکی تو اب انہیں ایمان لانے اور اپنے رب سے معافی مانگنے سے اس (مطالبے) کے سوا کوئی اور چیز نہیں روک رہی کہ ان کے ساتھ بھی پچھلے لوگوں جیسے واقعات پیش آجائیں، یا عذاب ان کے بالکل سامنے آکھڑا ہو۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام  کی آزمائش : حضرت اسماعیل علیہ السلام  کی پیدائش کو چند دن گزرے تو اللہ کی طرف سے  حکم آیا کہ انہیں بیابان میں چھوڑ آ۔ ابراہیم علیہ السلام  ہاجرہ اوراس کے شیر خوار بچہ اسماعیل علیہ السلام کو لے کر چلے اور جہاں آج کعبہ ہے اس  جگہ  ایک بڑے درخت کے نیچے  زمزم کے مقام سے بالائی حصہ پر ان کو چھوڑ گئے ۔ وہ جگہ ویران و غیرآباد تھی اور پانی کا نام ونشان نہ تھا ۔ صرف پانی کا ایک مشکیزہ  اور ایک تھیلی کھجور پاس تھی ۔ جیسے کھائی اور بچہ کو دودھ پلاتیں لیکن جب پانی وکھجور ختم ہوگئیں تو پریشان ہوئیں۔ بچہ بھی بھوکا پیاسا تھا ۔ ہاجرہ ؑ قریب کی پہاڑ میں صفا پر چڑھیں کہ شاید کوئی اللہ کا بندہ نظر آجائے ۔ پھر دوڑ کر بچہ  کے پاس آئیں۔ پھر دوسری جانب پہاڑی مروہ پر چڑھ گئیں مگر کوئی  نظر نہ آیا۔ اس طرح سات چکر لگائے ۔نبی  اکرم ﷺ   نے اس مقام پر پہنچ کر فرمایا کہ یہی وہ ” سعی بین الصفا والمروہ”   ہے جو حج میں لوگ کرتےہیں آخر میں جب وہ مروہ پر تھیں  تو ایک آواز آئی ۔دیکھا تو خدا کا فرشتہ ( جبرائیل  ) ہے فرشتہ نے اپنا ہیر اس جگہ مارا جہاں زمزم ہے تو پانی ابلنے لگا۔ ہاجرہ ؑ نے یہ دیکھا تو چاروں طرف باڑ بنادی حضورﷺ فرماتے ہیں :

“ا گر وہ زمزم کو اس طرح نہ روکتیں تو یہ آج زبردست چشمہ ہوتا “

 ابراہیم ؑ اگر چہ  ہاجرہ ؑ اوراسماعیل ؑ کو مکہ کےبیابان میں چھوڑ آئے لیکن باپ تھے اور نبی تھے ، اہلیہ اور بیٹے کو کیسے بھول سکتے وہ برابر اس اب وگیارہ صحراء میں اتے رہتے اور اپنے خاندان کی نگرانی کرتے رہتے ۔ اوردعا کرتے ۔

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ وَهَبَ لِيْ عَلَي الْكِبَرِ اِسْمٰعِيْلَ وَاِسْحٰقَ   ۭ اِنَّ رَبِّيْ لَسَمِيْعُ الدُّعَاۗءِ     39؁

تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے مجھے بڑھاپے میں اسماعیل اور اسحاق (جیسے بیٹے) عطا فرمائے۔ بیشک میرا رب بڑا دعائیں سننے والا ہے۔

مکہ مکرمہ کی آباد کاری :۔حضرت ہاجرہ  ؑ اپنے بیٹے اسماعیل ؑ کے ساتھ اسی طرح زندگی بسر کرتی رہیں ایک مرتبہ قبیلہ جریم کے ایک  قافلے کا وہاں سے گزر ہوا ۔ا نہوں نے وہاں  پر امڈنے والے پرندوں  کودیکھا تو بہت حیران ہوئے ۔ دوساتھیوں کو بھیج کر معلوم  کروایا تو انہوں نے  پانی کی خبر دی اوروہاں آباد ہوئے ۔

جب حضرت اسماعیل علیہ السلام جوان ہوئے تو قدم  جرہم سے عربی زبان سیکھیں ۔اسماعیل ؑ  جوانی میں خوبصورت اوروجاہت والے تھے ۔

ختنہ : جب   حضرت ابراہیم ؑ کی عمر ننانوے سال اور حضرت اسماعیل ؑ کی تیرہ  سال ہوئی تو اللہ تعالیٰ  کا حکم آیا کہ ختنہ کرواور ابراہیمؑ کےحکم کی تعمیل کی ۔

ذبح عظیم :۔ تاریخ  کا ایک عظیم  ترین امتحان  اور آزمائش دنیا کو آج بھی حیرت میں ڈال دیتی ہے  کون ہے جو بیٹے کو ذبح کرنے پر تیار  ہوجائے ۔ مگر مقربین بارگاہ الٰہی  کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا معاملہ وہ نہیں ہوتا  جو عام انسانوں کے ساتھ ہے  ان کو آزمائش کی سخت منزلوں سے گزرنا پڑتا ہے  ۔

 حضرت ابراہیم ؑ تین رات مسلسل خواب دیکھتے ہیں کہ  اللہ تعالیٰ فرماتا ہے  ۔” اے ابراہیم ؑ تو  ہماری راہ میں اپنے اکلوتے  بیٹے کی قربانی دے “

 با پ نے بیٹے (اسماعیل ؑ ) کو خواب  سنایا۔

 سورۃ الصافات میں ہے : فَلَمَّا بَلَــغَ مَعَهُ السَّعْيَ قَالَ يٰبُنَيَّ اِنِّىْٓ اَرٰى فِي الْمَنَامِ اَنِّىْٓ اَذْبَحُكَ فَانْظُرْ مَاذَا تَرٰى ۭ قَالَ يٰٓاَبَتِ افْعَلْ مَا تُــؤْمَرُ ۡ سَتَجِدُنِيْٓ اِنْ شَاۗءَ اللّٰهُ مِنَ الصّٰبِرِيْنَ  ١٠٢؁

 پھر جب وہ لڑکا ابراہیم کے ساتھ چلنے پھرنے کے قابل ہوگیا تو انہوں نے کہا : بیٹے ! میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ تمہیں ذبح کر رہا ہوں، اب سوچ کر بتاؤ، تمہاری کیا رائے ہے؟ بیٹے نے کہا : ابا جان ! آپ وہی کیجیے جس کا آپ کو حکم دیا جارہا ہے۔ (٢٠) انشاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔

جب باپ نے  بیٹے کو راضی پایا توقربانی  کے لیے جنگل  کی طرف روازنہ  ہوئے ۔ بیٹے کو ماتھے   کے  بل لگایا ۔ ہاتھ پیر باندھے چھری  گردن  پر رکھی ہی تھی کہ آوازآئی ۔

 سورۃ الصافات میں ہے  :

وَنَادَيْنٰهُ اَنْ يّـٰٓاِبْرٰهِيْمُ  ١٠٤؀ۙ

اور ہم نے انہیں آواز دی کہ : اے ابراہیم !

قَدْ صَدَّقْتَ الرُّءْيَا ۚ اِنَّا كَذٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِيْنَ  ١٠٥؁

تم نے خواب کو سچ کر دکھایا۔ یقینا ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح صلہ دیتے ہیں۔

اِنَّ ھٰذَا لَهُوَ الْبَلٰۗــــؤُا الْمُبِيْنُ  ١٠٦؁

یقینا یہ ایک کھلا ہوا امتحان تھا۔

وَفَدَيْنٰهُ بِذِبْحٍ عَظِيْمٍ  ١٠٧؁

اور ہم نے ایک عظیم ذبیحہ کا فدیہ دے کر اس بچے کو بچا لیا۔

وَتَرَكْنَا عَلَيْهِ فِي الْاٰخِرِيْنَ  ١٠٨؀ۖ

اور جو لوگ ان کے بعد آئے ان میں یہ روایت قائم کی

سَلٰمٌ عَلٰٓي اِبْرٰهِيْمَ  ١٠9؁

(کہ وہ یہ کہا کریں کہ) سلام ہو ابراہیم پر۔

كَذٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِيْنَ  ١١٠؁

ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح صلہ دیتے ہیں۔

اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِيْنَ   ١١١؁

یقینا وہ ہمارے مومن بندوں میں سے تھے۔

حضرت ابراہیم ؑ نے پیچھے مڑ کر دیکھا توجھاڑی کے قریب  ایک مینڈھا  کھڑا تھا۔ حضرت ابراہیم ؑ  نے خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے اس مینڈھے کو ذبح کیا۔

یہی اللہ کے تابعداربندے تھے کہ ایک چھری چلو ا کر مطمئن  دوسرا  چھری چلا کر مطمئن ہے صرف اللہ کے لیے ۔

یہ صرف اللہ کا امتحان تھا۔ دنیا کو یہ بتانا مقصد تھا ۔اولاد کی محبت اور دنیا  کی محبت میں۔اللہ تعالیٰ کی محبت سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے ۔اللہ کے لیے سب کچھ قربان کردینے کا جذبہ دل میں ہو۔

یہ فیضان   نظر تھا یا مکتب کی کرامت

سکھائے  کس نےا سماعیل ؑ کو آداب فرزندی

یہی وہ قربانی  ہے جو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ایسی  مقبول ہوئی کہ بطور یاد گار کے ہمیشہ کے لیے ملت ابراہیمی کا شعار قرار  پائی ۔ ذی الحج کے دس تاریخ کو تمام دنیا اسلام یہ یاد مناتی ہے ۔

قدیم گھر بیت اللہ کی تعمیر  :

دنیا میں جو اللہ کا پہلا گھر کہلایا وہ بیت اللہ ” ہے

اِنَّ اَوَّلَ بَيْتٍ وُّضِــعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِيْ بِبَكَّةَ مُبٰرَكًا وَّھُدًى لِّـلْعٰلَمِيْنَ      96؀ۚ

حقیقت یہ ہے کہ سب سے پہلا گھر جو لوگوں (کی عبادت) کے لیے بنایا گیا یقینی طور پر وہ ہے جو مکہ میں واقع ہے (اور) بنانے کے وقت ہی سے برکتوں والا اور دنیا جہان کے لوگوں کے لیے ہدایت کا سامان ہے۔

حضرت ابراہیم ؑ کو جب تعمیر کعبہ کا حکم ہوا تو حضرت اسماعیل ؑ  آپ کے ساتھ تھے ۔جب دیواریں بلند ہونا  شروع ہوئیں تو حضرت اسماعیل ؑ نے ایک پتھر  اپنے ہاتھ سے سہارا دے کر  لائے جس پر چڑھ کر حضرت ابراہیم علیہ السلام  نے کعبہ کی دیواروں کو اونچا کیا یہی وہ  یادگار ہے جو آج  مقام ابراہیم ؑ کے نام سے موسوم ہے  ۔جب تعمیر   حجرا سود کے مقام تک  پہنچی  تو  جبرئیل علیہ السلام نے جنت سے  لایا ہوا ایک پتھر لاکر دیا  تاکہ وہ نصب کردیاجائے ۔

فِيْهِ اٰيٰتٌۢ بَيِّنٰتٌ مَّقَامُ اِبْرٰهِيْمَ  ڬ وَمَنْ دَخَلَهٗ كَانَ اٰمِنًا  ۭ وَلِلّٰهِ عَلَي النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْـتَـطَاعَ اِلَيْهِ سَبِيْلًا  ۭ وَمَنْ كَفَرَ فَاِنَّ اللّٰهَ غَنِىٌّ عَنِ الْعٰلَمِيْنَ     97؀ سورۃ آل عمران

اس میں روشن نشانیاں ہیں، مقام ابراہیم ہے، اور جو اس میں داخل ہوتا ہے امن پا جاتا ہے۔ اور لوگوں میں سے جو لوگ اس تک پہنچنے کی استطاعت رکھتے ہوں ان پر اللہ کے لیے اس گھر کا حج کرنا فرض ہے، اور اگر کوئی انکار کرے تو اللہ دنیا جہان کے تمام لوگوں سے بے نیاز ہے۔

وَهُوَ الَّذِيْٓ اَحْيَاكُمْ  ۡ ثُمَّ يُمِيْتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيْكُمْ  ۭ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَكَفُوْرٌ  66؀ سورۃ الحج

 اور وہی ہے جس نے تمہیں زندگی دی، پھر وہ تمہیں موت دے گا، پھر تمہیں زندہ کرے گا۔ واقعی انسان بڑا ناشکرا ہے۔

لِكُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا هُمْ نَاسِكُوْهُ فَلَا يُنَازِعُنَّكَ فِي الْاَمْرِ وَادْعُ اِلٰى رَبِّكَ  ۭ اِنَّكَ لَعَلٰى هُدًى مُّسْتَقِيْمٍ 67؀ سورۃ الحج

 ہم نے ہر امت کے لوگوں کے لیے عبادت کا ایک طریقہ مقرر کیا ہے، جس کے مطابق وہ عبادت کرتے ہیں۔ (٣٠) لہذا ( اے پیغمبر) لوگوں کو تم سے اس معاملے میں جگھڑا نہیں کرنا چاہیے اور تم اپنے پروردگار کی طرف دعوت دیتے رہو۔ تم یقینا سیدھے راستے پر ہو۔

بیت اللہ کی تعمیر کے بعد اس  جگہ کو لوگوں کے لیے جمع  ہونے اور امن پانے کی جگہ مقرر کیا اور حکم ہوا کہ اس کو نماز کی جگہ بنالو اور ابراہیم اسماعیل علیہم السلام طواف  کرنے والوں  اور اعتکاف  کرنے والوں ، رکوع وسجود کرنے والوں  کے لیے میرے گھر  کو پاک وصاف  رکھاکرو۔

قرآن پاک میں  حضرت اسماعیل ؑ کے اوصاف :۔ سورۃ مریم  میں  حضرت اسماعیل ؑ کےا وصاف جمیلہ کا ذکر کیاگیاہے ۔

وَاذْكُرْ فِي الْكِتٰبِ اِسْمٰعِيْلَ ۡ اِنَّهٗ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَكَانَ رَسُوْلًا نَّبِيًّا 54؀ۚ

اور اس کتاب میں اسماعیل کا بھی تذکرہ کرو۔ بیشک وہ وعدے کے سچے تھے (٢٧) اور رسول اور نبی تھے۔

وَكَانَ يَاْمُرُ اَهْلَهٗ بِالصَّلٰوةِ وَالزَّكٰوةِ  ۠ وَكَانَ عِنْدَ رَبِّهٖ مَرْضِيًّا 55؀

اور وہ اپنے گھر والوں کو بھی نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیا تھے، اور اپنے پروردگار کے نزدیک پسندیدہ تھے۔

قوم جرہم نے اپنے قبیلے کی ایک لڑکی سے حضرت اسماعیلؑ کی شادی کردی ۔

حضرت اسماعیل ؑ کی وفات :۔ حضرت اسماعیل ؑ کی عمر جب  137 سال ہوئی تو ان کا انتقال ہوگیا ۔اس وقت ان کی اولاد اور نسل کاسلسلہ بہت پھیل  گیا تھا جو حجاز، شام، عراق، فلسطین ، اور مصر تک پھیلی ۔

تورات کے مطابق حضرت اسماعیل ؑ کی قبر فلسطین میں ہے ( پیدائش باب 25 ) 

اپنا تبصرہ بھیجیں