جمہوری نظام

دارالعلوم کراچی فتویٰ نمبر:58

مروجہ نظامِ جمہوریت مغربی جمہوریت ہے،اور مغرب سے لیا گیا ہے،جس میں “کثرتِ رائے” پر فیصلہ کا مدار رکھا گیا ہے،اور یہی جمہوریت کے معنی بھی ہیں،جبکہ اسلام میں فیصلہ کا مدار “قوتِ رائے” پر ہے،چنانچہ کثرتِ آراء میں رائے اور صاحبِ رائے کو نہیں دیکھا جاتا،جس کے ووٹ کی تعداد زیادہ ہو،وہ حکمران بنتا ہے،اسلام “مشورہ” یا شوریٰ پر زور دیتا ہے،مشورہ کے بعد اہلِ شوریٰ میں سے جس کی رائے میں قوت ہواور جس کی رائے موزوں ہو،اس کے مطابق فیصلہ کیا جاتا ہے،جیسا کہ تاریخِ اسلام پر واضح شاہد ہے۔

    تاہم جب تک یہ نظام ہمارے اوپر مسلط ہو،اس کے خلاف کھلی بغاوت کرنا درست نہیں،کیونکہ بغاوت کی صورت میں اسلام اور مسلمانوں کے حق میں زیادہ نقصان کا اندیشہ رہتا ہے،جیسا کہ ظاہر ہے،تاہم اس نظام میں رہتے ہوئے اسلامی نظامِ انتخاب کے لئے کوشش کرنی چاہئیے اور موجودہ نظام کی خرابیوں کو کم سے کم کرنے کے لئے جو بھی ممکنہ مساعی ہوں،وہ بروئے کار لانے چاہئیے،جس کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ انتخاب میں دینی اعتبار سے جو امیدوار زیادہ بہتر ہو ،اور نسبتاً زیادہ امانتدار اور دیانتدار ہو،اسکو منتخب کرنے کی کوشش کرنی چاہئیے،اس طریقے سے اسمبلیوں میں زیادہ سے زیادہ اچھے لوگ جمع ہوں گے،جو اسلام اور مسلمانوں کے حق میں بہتری کے لئے سوچیں گے،اور اسلام کے خلاف کوئی بھی قانون ہو یا آئین سازی ہو،اس کے خلاف آواز اٹھائیں گے،اس طریقہ سے موجودہ جمہوری نظام کی خرابیوں کا کسی حد تک سدِ باب ہو سکے گا۔واللہ تعالیٰ اعلم

                            عصمت اللہ عصمہ اللہ      الجواب صحیح

               دار الافتاء جامعہ دارالعلوم کراچی14   نائب مفتی

               22 ذیقعدہ/1431ھ                     جامعہ دارالعلوم

            31 اکتوبر 2010ء                      کراچی

                                                 22۔11۔1431ھ

 

اپنا تبصرہ بھیجیں