کسی وارث کا دیگر ورثاء کی اجازت کے بغیر ترکہ میں تصرف کرنا

فتویٰ نمبر:388

سوال: کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع دین  اس مسئلہ  میں کہ میرے  والد نے  اپنے انتقال کے وقت ایک مکان  جس کا نمبر 24/16ہے چھوڑا  اور یہ فردوس کالونی گلبہار نمبر ۱ میں واقع ہے   اس مکان میں اپنے والد کے انتقال کے بھی پہلے سے   رہائیش پذیر ہوں  او مکان کا رقبہ تقریباً  1400اسکوائر گز ہے   ۔

والد صاحب کے انتقال کے بعد ورثاء میں  میرے دو بھائی اور مجھ سمیت تین بہنیں ہیں  ،ان ورثاء میں ایک میری بڑی بہن اور بھائی کا انتقال ہو چکا ہے  اور ان کے با لترتیب  بڑی بہن کی ایک  بیٹی اور بڑے بھائی  کے دو بیٹے  اور تین بیٹیاں ہیں  ۔

مکان میں ایک حصے میں  میرے بھائی اپنے   بچوں کے ساتھ  اور ایک حصے میں مرحوم  بھائی کے دونوں  بیٹے رہائش پذیر ہیں  اور ایک چھوٹے حصے میں  میں اپنے  دونوں بیٹوں  کے ساتھ  رہتا ہوں  ،میں چونکہ بیوہ ہوں  اور اس جگہ میں میرا گزارا بھی مشکل سے ہوتا ہے  اور مزید یہ کہ میرے بھائی جو حیات  ہے  انھوں میں میرے گھر کا پانی بھی تقریباً 22سال سے بند کیا ہوا ہے  اور دوسرے جو اس جگہ رہائش پذیر ہیں  وہ بھی بہت پریشان ہے  ،اب صورتحال یہ ہے کہ مجھ سمیت سارے ورثاء یہ چاہتے ہیں  کہ اس مکان میں جو حق جس کا شرعی بنتا ہے  وہ اسے دے دیا جائے  لیکن بھائی اور ان کے بچے یہ کہتے ہیں کہ   جس کو حصہ چاہیے وہ کورٹ جائے مکان پورا ہمارا ہے  ہم اس میں سے کسی کو کچھ نہیں دینگے  لہذا آپ حضرات سے گزارش ہے کہ مندرجہ ذیل وارثوں کے لئے ورثاء کا کتنا حصہ بنتا ہے  اس کو واضح فر مادیں ۔

یہ مکان میرے والد  سید احمد قریشی مرحوم کا ہے  جن کی اولادیں مندرجہ ذیل ہیں۔

ورثاء :

(۱) سید عظمت علی

(۲)مسکین فاطمہ

(۳)فرزانہ بیگم

(۴)سید حشمت علی (مرحوم) ان کی بیوہ اور اولادیں زندہ ہیں ،دو بیٹے سید منظر علی  اور سید انور علی

بیٹیاں  قدسیہ اختر ، نعیم اختر، شاھین اختر (مرحوم )

(۵) نفیسہ  بیگم( مرحوم)  ان کی ایک بیٹی ہے ناھید بیگم

تنقیح

(۱) بڑے بھائی  او ر بڑی بہن کا انتقال  والد مرحوم کے انتقال  کے بعد ہوا یا پہلے  ؟

(۲)سید حشمت علی کی بیوہ  اور نفیسہ بیگم  کے شوہر زندہ ہیں ؟

(۳) والد مرحوم پر قرض تھا  یا انھوں نے کوئی وصیت کی تھی ؟

جواب تنقیح

(۱) ان کا انتقال والد مرحوم کے انتقال کے بہت بعد میں ہوا۔

(۲) سید حشمت علی کی بیوہ زندہ ہیں  ،نفیسہ بیگم کے شوہر وفات پاچکے ہیں  ۔

(۳) والد پر قرض نہیں تھا  ،وصیت بھی کوئی نہیں کی تھی  اور ان کے کفن دفن کے سب انتظامات چھوٹے بیٹے  عظمت علی نے بطور احسان  کیے تھے ۔

مزید یہ ہے کہ  جب میرے والد کا انتقال ہوا  تو میرے والد کے پاس   دو گاڑیاں موجود تھیں   ، سلائی کے دھاگے کی دوو مشینیں  بھی موجود تھی  اور اس کے علاوہ ایک لاکھ روپے کی شکل میں کام مال موجود تھا  اس کے علادہ دو دوکانیں اور چار مکان بھی کرایہ پر اٹھے ہوئے تھے  جس کا کرایہ خود وصول کرتے تھے  میرے والد کا انتقال   (دس اکتوبر بروز پیر  1080) میں ہوا  والد کے انتقال کے  بعد میرے شوہر زندہ رہے اور  اس حصہ کا کرایہ دیا شوہر کے انتقال کے بعد  سے اب تک جو سامان فروخت کیا  اور مکانوں اور دوکانوں سے کرایہ وصول کیا  اب تک ورثاء میں سے کچھ بھی نہیں دیا  اور میں نے اور  میرے بڑے بھائی مرحوم نے جب   مکان کے مسئلہ میں بات کی   تو میرے بھائی جن کا نام سید عظمت ہے انھوں نے کہا کہ یہ مکان والد نے میرے نام کیا تھا  اور اب میں یہ مکان بڑے بھائی جن کا نام ممتاز علی ہے  گفٹ کرتا ہوں ۔

الجواب حامدا ومصلیا

جواب سے پہلے چند تمہیدات  ملاحظہ کریں :

(۱)شریعت کی رو سے میراث کی تقسیم بلا تاخیر واجب ہے  ،تقسیم میراث میں تاخیر اور اس میں ناجائز تصرف حرام اور سخت گناہ ہے ۔(۱)

(۲) میراث  فونگی کے فوراً بعد تقسیم ہو تو  شرعاً میت کی چھوڑی ہوئی کل جائیداد نقدی وغیرہ  اس وقت کی قیمت کے اعتبار سے تقسیم ہوتی ہے  لیکن میراث کی تقسیم تاخیر سے ہو تو  فوتگی سے لے کر  تقسیم کے وقت تک اس سے جتنے  مالی منافع (کرایے ،کاروبار ،شادی وغیرہ)  حاصل کیے  جائیں  سب بھی اصل ترکہ میں شامل کرکے  ان کی موجودہ وقت کے حساب سے قیمت لگاکر ورثاء میں تقسیم ہوتے ہیں ۔

(۳) شرعاً صرف نام  کر دینے سے ایک چیز دوسرے کی  ملکیت میں نہیں چلی جاتی  بلکہ اور کئی امور ثابت ہونے کے بعد  ملکیت میں جاتی ہے ۔(۳)

ان تمہیدات کے بعد اب اصل  سوال کا جواب ملاحظہ کریں :

صورت مسئولہ میں تمہید نمبر ایک کے مطابق  والد مرحوم کی وفات کے فوراً بعد  میراث کی تقسیم واجب تھی  ،میراث کی تقسیم میں رکاوٹ ڈالنے والے  تقسیم میراث میں تاخیر اور اس میں ناجائز تصر ف کے مرتکب ہونے کی وجہ سے  گناہ میں ملوث ہیں ،ان پر لازم ہے  کہ اس گناہ  سے سچی توبہ کریں   اور حق داروں کو ان کا حق  ادا کرکے فی الفور   اس بھاری ذمہ داری سے خلاصی حاصل کریں ۔

قران کریم میں  اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں :

بلا شبہ جو لوگ یتیموں کا مال ناحق کھاتے ہیں  وہ اپنے پیٹوں میں آگ بھر رہے ہیں   اور عنقریب دہکتی آگ میں داخل ہونگے ۔(النساء آیت نمبر ۱۰)

ایک اور جگہ ارشاد ہے :

بے شک اللہ تعالی  تمہیں اس بات کاحکم   دیتے ہیں کہ  اہل حقوق کو ان کے حقوق پہنچادیا کرو                                                       (النساء ۲۹)

 

 

حدیث شریف میں آتا ہے :

جب کوئی بندہ مال حرام کھاتا ہے  پھر اس کو صدقہ کرتا ہے  تو  وہ قبول نہیں ہوتا   اور اگر اس میں سے خرچ کرتا ہے  تو برکت نہیں ہوتی اور  اگر اس کو اپنے وارثوں کے لئے چھوڑتا ہے  تو وہ جہنم میں جانے کے لئے اس کا توشہ ہوتا ہے ۔ بے شک اللہ بری چیز کو برے عمل سے نہیں دھوتے  ۔ہاں  اچھے عمل سے برے عمل کو دھو دیتے ہیں  (معارف القران  ج۱ ص۴۰۷فرید بک ڈپو)

تمہید نمبر دو کے مطابق والد  کی  چھوڑی ہوئی اصل میراث   اور اس پر ہونے والے تمام اضافے  (مکانوں اوردوکانوں کے کرایہ  وغیرہ ) بھی شامل میراث ہو کر  ورثاء میں تقسیم ہونگے  ۔

اس اعتبار سے اب میراث کی تقسیم کا طریقہ کار اب یہ ہوگا  کہ والد کی وفات کے وقت موجود  پانچ مکان دو دکان  ،مشینوں اور خام مال   اور دیگر تمام  منقولی اور جامد اثاثے   مع مالی منافع  واضافہ جات کی  موجودہ وقت کی قیمت  کے اعتبار سے مجموعی  مالیت لگائی جائے اور اس کے  سات  برابر حصے کرکے  ہر بیٹے کو دو حصے  اور ہر بیٹی کو ایک حصہ دیا جائے ۔

فیصد کے اعتبار سے ہر بیٹے کا حصہ28.57 اور ہر بیٹی کا حصہ  14.28ہے جیسا کہ ذیل کے نقشہ میں دکھایا گیا ہے ۔

ورثاء کی تفصیلعددی حصہفیصدی حصہ
حشمت علی228.57
عظمت علی228.57
مسکین فاطمہ114.28
فرزانہ114.28
نفیسہ114.28

 ان میں سے حشمت علی  کا انتقا ل ہو چکا  ہے  اس لئے ان کا حصہ ان کے ورثاء میں  تقسیم ہوگا جس  کا شرعی طریقہ کار یہ ہے  کہ مرحوم حشمت علی کے  بننے والے  حصے کے کل  آٹھ برابر حصے کیے جائیں  جن میں سے اس کی بیوہ کو ایک حصہ ،منظر علی اور انورعلی دو دو حصہ  اور قدسیہ ،نعیمیہ  اور شاہین کو ایک ایک حصہ  دے دیا جائے ۔(۴)

فیصد کے اعتبار سے  بیوہ کا 12.5حصہ ،قدسیہ ،نعیمیہ اور شاہین  ہر ایک کا  12.5اور منظر علی ،انور علی  ہر ایک کا 25فیصدحصہ ہے جیسا کہ ذیل کے نقشہ میں دکھا  یاگیا ہے ۔

ورثاء کی تفصیلعددی حصہفیصدی حصہ
بیوہ112.5
منظر225
انور225
قدسیہ112.5
نعیمیہ112.5
شاہین112.5

مرحوم سید حشمت علی کی ایک بیٹی  شاہین اختر کا انتقال  اس کے والد کے انتقال کے  بعد ہونے کی صورت میں یہ طریقہ تقسیم ہے ،اگر شاہین  کا انتقال اس کے  والد یعنی  حشمت علی کی وفات کے بعد ہوا ہے  تو شاہین کا حصہ اس کے شرعی ورثاء میں تقسیم ہوگا  جس کا طریقہ اس کے ورثاء کی تفصیلات بتا کر  معلوم کرلیا جائے  ۔

نفیسہ بیگم کی بھی وفات ہو چکی ہے  اس لئے ان کے حصے کی تقسیم  کا طریقہ بھی  اس کے ورثاء کی تفصیل بتا کر  معلوم کر لیا جائے

التخريج

(۱){ إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَى ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيرًا  } [النساء: 10]

{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا (29)} [النساء: 29]

تفسير الألوسي = روح المعاني (3 / 16):

 يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَأْكُلُوا أَمْوالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْباطِلِ بيان لبعض المحرمات المتعلقة بالأموال والأنفس إثر بيان تحريم النساء على غير الوجوه المشروعة، وفيه إشارة إلى كمال العناية بالحكم المذكور، والمراد من الأكل سائر التصرفات، وعبر به لأنه معظم المنافع، والمعنى لا يأكل بعضكم أموال بعض،

والمراد بالباطل ما يخالف الشرع كالربا والقمار والبخس والظلم- قاله السدي- وهو المروي عن الباقر رضي الله تعالى عنه وعن الحسن هو ما كان بغير استحقاق من طريق الأعواض

سنن سعيد بن منصور (1 / 118):

عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ قَطَعَ مِيرَاثًا فَرَضَهُ اللَّهُ، قَطَعَ اللَّهُ مِيرَاثَهُ مِنَ الْجَنَّةِ»

سنن سعيد بن منصور (1 / 118):

عَنْ عِمْرَانَ بْنِ سُلَيْمٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ قَطَعَ مِيرَاثًا فَرَضَهُ اللَّهُ قَطَعَ اللَّهُ مِيرَاثَهُ فِي الْجَنَّةِ»

السنن الكبرى للبيهقي (8 / 316):

عن أبي حرة الرقاشي، عن عمه , أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ” لا يحل مال رجل مسلم لأخيه , إلا ما أعطاه بطيب نفسه ” لفظ حديث التيمي وفي رواية الرقاشي: ” لا يحل مال امرئ , يعني مسلما , إلا بطيب من نفسه “

المعجم الكبير للطبراني (17 / 23):

عن كثير بن عبد الله بن عمرو بن عوف، عن أبيه، عن جده، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «لا غصب ولا نهبة»

صحيح البخاري (9 / 25):

 عن أم سلمة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: «إنما أنا بشر، وإنكم تختصمون إلي، ولعل بعضكم أن يكون ألحن بحجته من بعض، وأقضي له على نحو ما أسمع، فمن قضيت له من حق أخيه شيئا فلا يأخذ، فإنما أقطع له قطعة من النار»

 

 

(۲)البناية شرح الهداية (7 / 373):

 الشركة ضربان: شركة أملاك، وشركة عقود، فشركة الأملاك العين يرثها الرجلان أو يشتريانها فلا يجوز لأحدهما أن يتصرف في نصيب الآخر إلا بإذنه

الفتاوى الهندية (2 / 346):

لو تصرف أحد الورثة في التركة المشتركة وربح فالربح للمتصرف وحده، كذا في الفتاوى الغياثية.

مجمع الضمانات (1 / 130):

ولو استعمل المغصوب بأن كان عبدا فأجره فالأجرة له، ولا تطيب له فيتصدق بها.

وكذا لو ربح بدراهم الغصب كان الربح له، ويتصدق به، ولو دفع الغلة إلى المالك حل للمالك تناولها كما في الهداية.

 (۳)فتح القدير للكمال ابن الهمام (9 / 19):

وتصح بالإيجاب والقبول والقبض) أما الإيجاب والقبول فلأنه عقد، والعقد ينعقد بالإيجاب، والقبول، والقبض لا بد منه لثبوت الملك.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5 / 688):

وشرائط صحتها في الموهوب أن يكون مقبوضا غير مشاع مميزا غير مشغول

(۴)الفتاوى الهندية (6 / 450):

وأما الاثنان من السبب فالزوج والزوجة فللزوج النصف عند عدم الولد وولد الابن، والربع مع الولد أو ولد الابن وللزوجة الربع عند عدمهما والثمن مع أحدهما، والزوجات والواحدة يشتركن في الربع والثمن وعليه الإجماع، كذا في الاختيار شرح المختار.

اپنا تبصرہ بھیجیں