مال میراث میں زکوٰۃ

فتویٰ نمبر:17

 کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان  شرع متین ان مسائل کے بارے میں

اگر کسی  آدمی کا انتقال ہوجاتا ہے  اور وہ اپنی ملکیت  میں کافی نقدی  اور زیورات  چھوڑتا ہے اورعاقم بالغ ورثاء کئی سالوں تک اس مال میراث کی زکوٰۃ  ادا نہیں کرتے  جبکہ ہروارث کے حصے  میں نصاب زکوٰۃ سے زیادہ مالیت  آتی ہے ، ایسی  صورتحال میں زکوٰۃ کے بارے میں شرعاً کیا حکم ہے، جبکہ اس میں درج ذیل صورتیں پیش آسکتی ہیں :

  • مرحوم کے انتقال کے وقت تک مال ا س کے قبضے اور تصرف میں ہوا ور پھر انتقال کے بعدورثاء کے مشترکہ قبضہ میں ہو، مراد یہ ہے کہ مورث نے کسی الماری میں رکھا ہو،ا س کے انتقال کے بعد ورثاء نے  باوجود علم کے باہمی رضامندی   سےا س میں رکھا رہنے دیاہو، کسی ایک وارث کا ذاتی قبضہ ا س پر نہ ہو۔ا ور اسی حالت میں زکوٰۃ ادا کئے بغیر کئی سال گزر جائیں ۔
  • مرحوم کے انتقال کے بعد ورثاء نے باہمی رضامندی سے کسی ایک وراث کی تحویل میں دیاہو جبکہ پہلے سے اس  وارث کے قبضہ میں نہ ہو۔
  • مرحوم کے انتقال کے بعد سب ورثاء نے باہمی رضامندی سے مشترکہ کاروبار کیاہو یا بعض ورثاء نے  دیگر ورثاء کی رضامندی  سے کاروبار کیاہو۔
  • کسی وارث نے دوسرے ورثاء کی اجازت کے بغیر کاروبار کیاہو۔
  • مال میراث پر مرحوم کے انتقال کے بعد کسی وارث نے قبضہ کرلیا ہو اورا س نے دوسرے ورثاء کی اجازت  کے بغیر  اس پر قبضہ کیاہویامال میراث مرحوم  کی زندگی میں کسی وارث کے  پا س ہو اور مرحوم  کے انتقال کے بعد اسی وارث کے قبضہ میں ہو۔ اور تقسیم میراث میں تاخیر ہوجائے ۔
  • اوپر نمبر 5 میں مذکورہ صورتوں کے مطابق مال میراث کسی  وارث کے  پاس تھا ، ورثاء کی رضامندی  سے شرعی  تقسیم کا حساب  کیاگیا، لیکن بعض ورثاء کو تقسیم کرکے دیاگیا اور بعض  ورثاء کا حصہ  تقسیم  کرکے نہیں دیاگیا، بلکہ اس  فرد کے  پاس رہا ، کافی عرصہ کے بعد  باقی ورثاء  کو ان کا حصہ تقسیم  کرکے دیاگیا۔
  • مذکورہ بالا صورت میں اگر تمام ورثاء کے حصوں کا الگ الگ تقسیم کرکے تعین کرلیاگیا ہو لیکن  بعض  ورثاء کو دے دیا  گیا اور بعض  ورثاء نے خود مطالبہ  نہیں کیااور کافی  عرصہ بعد ان کو ملا۔
  • ان تمام صورتوں سے متعلق دریافت یہ کرنا ہے کہ جس وارث کو مال میراث کئی سالوں کے بعد ملا ہے کیا اس کے ذمہ گزشتہ  تمام سالوں کی زکوٰۃ ادا  کرنا لازم ہے یا نہیں ؟

الجواب  حامداومصلیاً

اولا ً یہ جاننا ضروری ہے  کہ مال میراث  دین ضعیف ہے اور دین ضعیف  پر قبضہ  سے پہلے زکوٰۃ  واجب نہیں ہوتی. لہذا اگر کسی وارث کا حصہ میراث ا س کے قبضہ  میں تاخیر  سے آئے تو اس  کے ذمہ گزشتہ  سالوں کی زکوٰۃ  کی ادائیگی  واجب نہیں ہوگی ۔ امدادالمفتین ( ص397 ) میں ہے  کہ :

 جو دین کسی مال تجارت یا سونے   چاندی  کے عوض  میں کسی شخص کے ذمہ واجب ہوا ہے  جس کو دین قوی  کہاجاتا ہے  اس پر یا تو ایام ماضیہ  کی زکوٰۃ  واجب ہے  اور جو ایسے مال کے عوض  میں  نہ ہو خواہ بالکل کسی چیز کا معاوضہ  ہی نہ ہو جیسے  حصہ میرا ث ووصیت  یا معاوضہ   ہو مگر  مال کا معاوضہ  نہ ہو جیسے  دین مہر ( اس  کو اصطلاح  میں دین ضعیف  کہتے ہیں )  اس میں ایام ماضیہ کی زکوٰۃ واجب نہیں ۔ ( نیز ملاحظہ کیجیے  عبارات  : 1 تا 5 )

سوال میں جو صورتیں  ذکر کی گئی ہیں  ان میں  وارث کا قبضہ  ( خواہ وہ اصالۃً ہو یا نیابۃً ہو)  جس وقت  سے  پایا جائےگا اس  وقت سے  ا س وارث   پر زکوٰۃ  کا وجوب  ہوگا ۔اب ذیل میں ان صورتوں  کا حکم تفصیل  سے بیان کیا جاتا ہے  :

(1،2،3) ان تینوں  صورتوں  میں تمام ورثاء  کا قبضہ پائے جانے کی وجہ سے ہر ایک وارث کے ذمہ اس کے  اپنے حصے  پر گزشتہ  سالوں کی زکوٰۃ کی ادائیگی  لازم ہوگی  ۔ پہلی صورت  میں جبکہ ورثاء  نے باہمی رضامندی  سے الماری  میں مال میراث رکھا رہنے  دیا ہوتو اس صورت میں  ہر ایک وارث کا حکماً قبضہ سمجھا جائے گا ، دوسری صورت میں ورثاء کی باہمی رضامندی  سے کسی ایک وارث کا قبضہ کرنا سب کا قبضہ سمجھا جائے گا،ا س طور  پر کہ وارث کا اپنے حصہ پرا صالۃ ً قبضہ ہوگا اور بقیہ ورثاءکے حصوں   پر نیابۃً قبضہ ہوگا۔ تیسری صورت  میں جب تمام ورثاء باہمی  رضامندی  سے کاروبار کریں گے تو ہر ایک کا قبضہ اصالۃً ہوگا اوراگر  بعض ورثاء کی رضامندی  سے کام کریں گے تو کاروبار  کرنے والوں  کا اپنے حصہ پر قبضہ  اصالۃً اور دیگر  ورثاء   کے حصوں پر قبضہ نیابۃً ہوگا (  ملاحظہ کیجیے عبارات : 6 تا 15)

4) اس صورت  میں اگر ورثاء  نےا س وارث کوصراحۃً منع کیاہو یا صراحۃً تو منع کیاہو لیکن اجازت  بھی نہ دی ہو ، نہ صراحۃً اور نہ دلالۃً ،بلکہ اس کے خلاف  پر قرائن موجود ہوں مثلا ً ورثاء کا ناراضگی  کا یا عدم  اطمینان  کا اظہار کرنا تو ایسی صورت  میں بقیہ ورثاء  کو اپنا حصہ ملنے پر  ان کے ذمہ گزشتہ سالوں کی ادائیگی  لازم ہوگی  ۔

اور اگر بقیہ  ورثاء  کی طرف سے دلالۃً اجازت ہو بایں  طور کہ ان کو معلوم ہو کہ اس کاروبار میں ہمارا حصہ  ہے اور باوجود قدرت  کے وہ منع نہیں کرتے اور کاروبار کرنےو الا بھی ان کو حصہ دار سمجھتا ہے تو ایسی صورت میں اس مال پر تمام  ورثاء  کا قبضہ شمار ہوگا، لہذا اس صورت  میں تمام ورثاء  کے ذمہ اپنے حصے  پر گزشتہ  سالوں کی زکوٰۃ  کی ادائیگی  لازم ہوگی  ۔

 5) مذکورہ  دونوں  صورتوں میں مال میراث جس وارث کے قبضہ  میں ہوگا اس کے ذمہ  اپنے حصہ پر گزشتہ  سالوں کی زکوٰۃ  کی ادائیگی  واجب ہوگی  اور بقیہ ورثاء  نے اگر اس  کو اپنے حصے  پر قبضہ کی اجازت نہ  دی ہو اور نہ قبضہ  کرنے کے بعد  اس کے پاس اپنا حصہ  رکھنے  پر رضامندی  کا اظہار کیاہوتو ان  کے  حصہ پر گزشتہ سالوں کی زکوٰۃ  واجب نہیں ہوگی  ۔

6، 7)  جن ورثاء  کوان کا حصہ تقسیم  کرکے نہیں دیا گیا ( خواہ ان کے حصوں کی الگ الگ تقسیم کی گئی ہو یا نہ کی گئی ہو ) اگر انہوں نے  اپنا حصہ  مذکورہ وارث کے  پاس رہنے  دینے کا اظہار  کردیاہوتو ایسی  صورت میں اس وارث کا قبضہ ان کے قبضہ کے  قائم مقام  ہوجائے گا  اور ان پر گزشتہ  سالوں کی زکوٰۃ واجب ہوگی اور اگر انہوں نے  اس کے پاس اپنا حصہ  رکھنے پر رضامندی ظاہر  نہ کی ہو  ، نہ ہی اس وارث نے بقیہ  ورثاء  اور ان کے حصوں  کے درمیان   تخلیہ کیا ہو اور نہ ہی ان کو ان کا حصہ دینے  پر آمادگی  کا اظہار کیاہوتو ایسی صورت  میں  بقیہ ورثاء  کے ذمہ ان کے حصہ پر گزشتہ سالوں کی زکوٰۃ  واجب نہ ہوگی لیکن  اگرا س وارث نے بقیہ  ورثاء اور ان کے حصوں  کے درمیان تخلیہ کردیاہو یا وہ ان کا حصہ دینے  کے لیے تیار  ہو اور ان سے کہہ دے  کہ کہ وہ اپنا حصہ  وصول کرلیں  تو اگر ورثاء  اس کی اس آمادگی  کے باوجود  فی الحال اپنا حصہ  نہیں لیتے  تویہ ان کی طرف سے اس بات  کی دلالۃً اجازت ہوگی  کہ ان  کا حصہ  میراث اس وارث  کے قبضہ میں رہے  ، اس صورت  میں  وہ وارث ان کی طرف سے  ان کے حصہ  میں امین ہوگا اور  اس کا قبضہ  ان کے قبضہ  کے قائم مقام  ہوجائے گا ، لہذا بقیہ ورثاء  پر بھی اپنے حصہ میراث  میں گزشتہ  سالوں کی زکوٰۃ  واجب ہوگی  ۔

  • فی الفتاویٰ الھندیۃ : (1/176)  
  • وفی التاتار خانیۃ : 2/227)
  • وفی مجمع الانھر فی شرح  ملتقی  الابحر : (1/289)  
  • وفی النتف فی الفتاویٰ : ( ص 111)
  • وفی المبسوط : (3/43)

عبدالحفیظ  حفظہ اللہ تعالیٰ

عبدالمالک عفی عنہ  

دارالافتاء جامعہ دارالعلوم  کراچی  

عربی حوالہ جات اور مکمل فتویٰ   پی ڈی ایف فائل  میں حاصل کرنے کے لیے دیے گئے لنک پر کلک کریں :

https://www.facebook.com/groups/497276240641626/554999571535959/

اپنا تبصرہ بھیجیں