مختلف ملکوں کی کرنسی کی خرید وفروخت کا حکم

فتویٰ نمبر:12

سوال: کیا فرماتے ہیں  علماء کرام اس مسئلے کے بارے میں  زید نے عمر سے  200 ڈالر قرض  لیا اورادائیگی  قرض پاکستانی  روپے  طے  پائی ۔ اور ڈالر  کی قیمت  ادائیگی  کے وقت  متعین  کیا گیا۔ جس وقت  قرض لوٹادے گا  اسی دن کے ریٹ کے مطابق  پاکستانی  روپے  دے گا ۔کیا س طرح  کا معاملہ کرنا جائز ہے۔

الجواب حامداومصلیا ً

سوال میں  مذکور کردہ  صورت جائز نہیں ہے، کیونکہ یہ معاملہ  در حقیقت  قرض کا نہیں  بلکہ ڈالر کو پاکستانی  روپے کے بدلے  فروخت  کرنےکا معاملہ  ہے ۔ اور خرید وفروخت  کا معاملہ  کرنے کے لیے   قیمت فروخت مقرر ہونا ضروری  ہے ۔ نیز مختلف  ملکوں کی کرنسیوں کا ادھار  پر معاملہ کرنے کے لیے  یہ بھی ضرور ی ہے کہ معاملہ اسی دن کی قیمت  کے  حساب سے   کیاجائے گا ،ادائیگی  کے دن کی قیمت  پر فروختگی جائز نہیں ۔

البتہ اگر دالر  فروخت کرنے کے بجائے  قرض  کے طور پر  دے دئیے جائیں اورا س کی ادائیگی  پاکستانی روپے میں کرنا طے نہ ہو بلکہ ڈالرز کی واپسی اتنے ہی ڈالرز کی شکل میں ہو تو  جائز ہے ۔ا لبتہ  اگر ادئیگی  کے دن  باہمی رضامندی  سے اس دن  کے  بازاری  نرخ  کے مطابق  روپے میں ادائیگی  کردی جائے تو ا س کی گنجائش ہے ۔

فی مشکوۃ المصابیح ۔ ( ص:248)

وفی الدر المختار۔ (5/162)

وفی فقہ البیوع ۔( 2/733)

واللہ سبحانہ وتعالیٰ

محمد عزیر قاسم

دارالافتاء جامعہ دارالعلوم  کراچی

29/محرم /1437ھ

12/نومبر  /2015

اپنا تبصرہ بھیجیں