پاکستان کی خارجہ پالیسی۔ دسویں قسط

پاک افغان تعلقات۔ تیسرا حصہ

طالبان کا ظہور یوں ہوا کہ جنوبی افغانستان میں ملا عبد السلام راکٹی نام کا ایک کمانڈر تھا جس نے افغانستان کی لاتعداد ڈیڑھ ڈیڑھ بالشتی شخصی حکومتوں کی طرح اپنی ایک ڈیڑھ بالشت کی حکومت قائم کر رکھی تھی جو لونڈے بازوں کے ایک گروہ پر مشتمل تھی۔ یہ لڑکے تو اغوا کرتے رہے تھے لیکن ایک دن کسی غریب کی لڑکی بھی اغوا کر لی۔ افغان سماج کی سب سے قابل احترام شخصیت عالم دین ہوتا ہے۔ نہ وہاں عالم کی تذلیل ہوتی ہے اور نہ ہی اس کی بات ٹالی جاتی ہے۔ مغوی لڑکی کا والد ملا عمر نامی ایک گمنام مقامی عالم دین کے پاس شکایت لے کر پہنچا تو اس نے اپنے طلباء کو لڑکی چھڑا کر لانے کا ٹاسک دیدیا۔ ان طلباء نے کچھ مقامی لوگوں کو ساتھ ملایا اور ملا راکٹی کے مرکز کی جانب بڑھنا شروع کردیا۔ یہ لوگ لڑائی کی نیت سے جا ہی نہیں رہے تھے لیکن راکٹی اور اس کا گروہ اس ہجوم کو بڑھتا دیکھ کر گھبرا گیا اور فرار ہو گیا جس سے یہ اڈہ ختم ہو گیا۔ کئی لڑکیاں اور لڑکے وہاں سے چھڑا کر لائے گئے۔ ملا راکٹی کے عذاب سے نجات پانے پر لوگ اتنے خوش ہوئے کہ انہوں نے ملا عمر سے کہنا شروع کردیا کہ فلاں کمانڈر نے ہماری ناک میں دم کر رکھا ہے اور فلاں کمانڈر بھی کسی آسمانی آفت سے کم نہیں آپ ان کا بھی کچھ کیجئے۔ ملا عمر نے آس پاس کے ان مقامی کمانڈروں کی شخصی حکومتیں لپیٹنی شروع کردیں جس میں صرف طلباء ہی شریک نہ تھے بلکہ مقامی آبادی بھی شامل تھی۔ چونکہ یہ علماء اور طلباء سیاہ پگڑیاں باندھتے تھے تو مقامی لوگوں نے بھی اپنی سفید اور پیلی دھاری دار پگڑیاں چھوڑ کر کالی پگڑیاں باندھ کر خود کو اس تحریک سے مکمل وابستہ کر لیا۔ خلاصہ یہ کہ جلد ہی قندھار اور ہلمند صوبے بغیر کسی جنگ کے طالبان کے کنٹرول میں آگئے۔ اور تب تاریخ نے ایک دلچسپ ترین موڑ لیا، ایک ایسا موڑ جو نہایت حیران کن ہے۔

جان محمد، احمد شاہ مسعود اور حکمتیار کو بھٹو کابل یونیورسٹی سے لائے تھے تو گویا وہ افغان جہاد کے گاڈ فادر ہوئے۔ اور انہیں چراٹ میں میجر جنرل نصیر اللہ بابر کے سپرد کیا گیا تھا جو اس خفیہ آپریشن کے انچارج مقرر ہوئے تھے تو گویا وہ تو گویا وہ فادر آف مجاہدین ہوئے۔ سلطان عامر تارڑ المعروف کرنل امام اس سینٹر میں افغان مجاہدین کے پہلے ٹرینر بنے تو گویا وہ مجاہدین کے استاذ اول ہوئے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پیپلز پارٹی کی سب سے سخت ترین حریف پارٹی جماعت اسلامی رہی ہے جس کے سابق امیر قاضی حسین احمد تاریخ کے اوراق پر اپنی یہ گواہی ڈال کر دنیا سے رخصت ہوئے ہیں کہ ان تینوں کو بھٹو لائے تھے اور پشاور میں خفیہ ملٹری ٹرینگ شروع کی گئی تھی جس سے بھٹو اور نصیر اللہ بابر کے سوا پیپلز پارٹی تک کا کوئی رہنماء با خبر نہ تھا۔ آئی ایس آئی فتح کابل کے بعد احمد شاہ مسعود اور حکمیار کی جنگ ختم کرانے میں ناکام ہو چکی تھی اور کسی کو کچھ بھی سجھائی نہیں دے رہا تھا ایسے میں جب قندھار اور ہلمند طالبان کے قبضے میں چلے گئے تو پاکستان میں ذولفقار علی بھٹو کی بیٹی محترمہ بینظیر بھٹو اقتدار میں تھیں جو یہ جانتی تھیں کے انکے والد کو ایوب خان کے وزیر خارجہ کی حیثیت سے افغانستان سے پاکستان کی سلامتی کا چیلنج درپیش رہا تھا اور وزیر اعظم بننے کے بعد اس چیلنج کا پکا توڑ کرنے کے لئے انہوں نے ہی افغان جہاد کی بنیاد ڈالی تھی اور یہ کہ مسئلہ اب بھی حل نہیں ہو سکا بلکہ افغانستان خانہ جنگی میں چلا گیا ہے اور نواز شریف اسے حل کرنے میں ناکام رخصت ہوا ہے تو یہ وہ موقع تھا جب بینظیر نے اپنے والد کے نا مکمل مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا زبردست موقع بھانپ لیا۔ یوں گویا بھٹو کی جو افغان میراث ضیاءالحق کے ہاتھ لگی تھی وہ ضیاء الحق کے لاڈلے نوازشریف سے ہوتی ہوئی بھٹو کی بیٹی کے سامنے آگری۔ افغان مجاہدین کے فادر میجر جنرل نصیر اللہ بابر ان کی حکومت میں وزیر داخلہ تھے چنانچہ فوری طور پر انہیں طلب کر کے محترمہ نے منصوبہ سمجھایا اور یہ ٹاسک ان کے سپرد کر دیا۔ نصیر اللہ بابر افغان مجاہدین کے استاذ اول کرنل امام کو لے آئے جو انہیں دنوں فوج سے ریٹائر ہوئے تھے۔ انہیں آئی ایس آئی کے افغان ڈیسک پر ہی فوری واپس لایا گیا اور یہاں سے سیدھا جنوبی افغانستان بھیجا گیا جہاں وہ بطور سفار تکار پاکستانی قونصل خانے میں تعینات ہوئے اور طالبان کے رابطے میں آگئے۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ اور شمالی کوریا سے میزائلوں کی بمع ٹیکنالوجی خریداری ایسے دو ایشو ہیں جس میں فوج اور بینظیر بھٹو دونوں ایک ہی پیج پر تھے۔ سلگتا ہوا کابل امریکہ کی ضرورت تھا جبکہ پر امن کابل پاکستان کے لئے ہر حال میں ضروری تھا۔

محترمہ بینظیر بھٹو یہ جانتی تھیں کہ ان کے والد کا اصل قاتل امریکہ ہی ہے۔ وہ اپنے جذباتی والد سے ذہانت میں بدرجہا فائق تھیں، پاکستانی سیاستدانوں میں سے اس خطے میں امریکی مفادات کو جتنا نقصان محترمہ نے پہنچایا وہ 67 سال میں کوئی نہیں پہنچا سکا۔ وہ بظاہر بہت بولڈ، اینٹی مذہب اور نہ جانے کیا کیا تھیں لیکن ان کے اندر کی بینظیر بھٹو اتنی مختلف تھی کہ آپ تصور بھی نہیں کر سکتے۔ میں خاص طور پر دیوبندی مولویوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ کچھ واقعات افشاں نہیں کئے جاسکتے ورنہ آپ پر تو ان کے اتنے احسانات ہیں کہ آپ دوسرا جنم لے کر بھی ان کا قرض نہیں چکا سکتے۔ مولانا فضل الرحمٰن کو انہوں نے محض اندرونی سیاسی ضرورتوں کے لئے ہمیشہ قریب نہیں رکھا تھا بلکہ وہ جانتی تھیں کہ پاکستان میں سب سے طاقتور اینٹی امریکہ فورس دیوبندی مکتبہ فکر ہے جس کے سب سے بڑے لیڈر کو ساتھ رکھ کر ہی امریکی مفادات کو نقصان پہنچایا جاسکتا ہے اور انہوں نے یہ کیا۔ میں جانتا ہوں کہ مولانا کا تعریفی ذکر موجودہ دور میں ناقابل ہضم خوراک ہے ، خود میں بھی مولانا کا شدید ناقد ہی ہوں لیکن جب آپ تاریخ لکھ رہے ہوں اور ضمیر زندہ ہو تو سچ آپ کی سب سے بڑی مجبوری بن جاتا ہے۔ آپ ایک لمحے کے لئے غور تو کیجئے کہ محترمہ نے اس مولوی کو خارجہ امور کمیٹی کا ہی کیوں چیئر مین بنایا ؟ وہ تو مولوی تھے، مذہبی امور یا اوقاف یا کوئی اور لولی پوپ ٹائپ چیئر مین شپ دیدیتیں، آخر “خارجہ امور” ہی کیوں ؟جب آپ اس نکتے پر غور کرینگے تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ آپ کے دماغ میں زیرو واٹ کے ہی سہی مگر دوچار بلب ضرور روشن ہو جائینگے۔ ان دونوں نے مل کر امریکہ کو جتنا “ماموں” بنایا ہے اتنا تو منا بھائی اور سرکٹ نے مل کر ڈاکٹر استانہ کو بھی نہیں بنایا تھا۔ اگر میں مولانا فضل الرحمٰن کو پاکستان کی سیاسی فلم کا “سرکٹ” قرار دوں تو غلط نہ ہوگا۔ الحمدللہ مجھے اللہ نے یہ توفیق دی کہ محترمہ کی شھادت سے 19 روز قبل میں نے گڑھی خدا بخش میں ذوالفقار علی بھٹو شھید کی قبر پر فاتحہ خوانی کی اور اپنے رب سے دعاء گو ہوں کہ مجھے محترمہ کی قبر پر بھی فاتحہ خوانی کی توفیق اور موقع عطاء فرمائے۔ آمین

نصیر اللہ بابر یا کرنل امام نے ملاعمر کو اپنا کوئی ایجنڈہ نہیں پکڑایا بلکہ بہت سمپل بات کی اور وہ یہ کہ جو آپ کر رہے ہیں اسے منطقی انجام تک پہنچائے بغیر مت چھوڑنا۔ پورے افغانستان میں جھاڑو پھیرو اور یہ ڈیڑھ ڈیڑھ بالشت کی تمام شخصی حکومتیں بلا کسی استثناء کے لپیٹ کر رکھدو اور افغانستان کو ایک ہی حکومت کے تحت لے آؤ۔ اس ضمن میں اگر ہماری کسی مدد کی ضرورت پڑی تو بلا تکلف مانگ لینا۔ میں پہلے ہی عرض کرچکا ہوں کہ افغانستان میں عالم دین سب سے قابل احترام شخصیت ہوتا ہے اور پختون بیلٹ میں تو اس سے کوئی لڑتا بھی نہیں ہے۔ چناچہ جب طالبان آگے بڑھے تو پختون بیلٹ میں جتنے بھی کمانڈر تھے بشمول مولانا جلال الدین حقانی و مولانا ارسلان خان رحمانی کسی ایک نے بھی مزاحمت نہیں کی سب نے اپنے اپنے علاقے میں ان کا استقبال کیا اور اپنے لا محدود اسلحہ ڈپوؤں کی کنجیاں ان کے حوالے کرتے چلے گئے کیونکہ طالبان نے صاف کہدیا تھا حکومتی اہلکار کے علاوہ کسی بھی شخص کو ہتھیار رکھنے کی اجازت نہیں ہوگی چاہے وہ کتنا ہی بڑا کمانڈر کیوں نہ ہو۔ ہرات میں افغان جہاد کے چوتھے بڑے کمانڈر اسماعیل خان توران نے تھوڑی سی مزاحمت کی لیکن پھر فرار ہوتے ہوئے پکڑا گیا مگر کچھ عرصے بعد طالبان کی قید سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا۔ کابل تک رسائی سے قبل سب سے مشکل اور خونریز مزاحمت سروبی میں کمانڈر عبد الحق نے کی جو حکمتیار کا اہم کمانڈر تھا اور بہت طاقتور ہو چکا تھا۔ سروبی جلال آباد سے کابل جاتے ہوئے آنے والا ایک پیچدار درہ ہے۔ اگر پہاڑوں پر فوج موجود ہو تو آپ سڑک سے نہیں گزر سکتے۔ اس درے میں طالبان کا اتنا بڑا جانی نقصان ہوا کہ لاشوں کے انبار لگ گئے۔ طالبان کے پہلے کمانڈر انچیف اور شہرہ آفاق کردار ملا برجان بھی یہیں شھید ہوگئے لیکن طالبان نے پروا نہیں کی وہ اپنی لاشوں کو روندتے ہوئے سروبی عبور کر گئے۔

اس درے کو عبور کرتے ہی “چھار آسیاب” ان کے سامنے تھا جہاں گلبدین حکمتیار کا ہیڈ کوراٹر تھا۔ جو فورس سروبی جیسے تنگ درے سے خون کا دریا عبور کر کے گزر آئے اس کے لئے نسبتا خاصا ہموار چھار آسیاب کیا چیز تھی ؟ حکمتیار مقابلہ کئے بغیر نکل لئے اور ایسے نکلے کہ پھر کئی ماہ بعد ایران میں نمودار ہوئے کیونکہ آئی ایس آئی اور قاضی حسین احمد کے اس لاڈلے کے لئے اب پاکستان ہی نہیں قاضی حسین احمد کے دل کے دروازے بھی بند ہوچکے تھے۔ جن کا اعتماد اس شخص نے بری طرح توڑا تھا اور صلح کی تمام کوششیں ناکام کرنے میں احمد شاہ مسعود کے ساتھ برابر کا شریک تھا۔ کابل تو حلوہ ثابت ہوا۔ مسعود اور رشید دوستم دونوں اپنے گھر بچانے کے لئے پنجشیر اور مزار شریف فرار ہوگئے۔ طالبان کا پہلا دستہ کابل میں داخل ہوا تو بارہ لڑکوں کا ایک گروپ اقوام متحدہ کے دفتر سے نجیب اللہ کو کھینچ لایا اور چوک میں پھانسی پر لٹکا دیا جو پہلی بڑی غلطی ثابت ہوا۔ 28 ستمبر 1996 کو کابل فتح ہوا تو ملا عمر قندھار میں تھے اور وہیں رہے۔ کابل پر طالبان کی حکومت قائم ہو گئی جس کے سربراہ ملا محمد ربانی مقرر ہوئے۔ قائد اسے نہیں کہتے جو ہجوم زیادہ بڑا اکٹھا کر سکتا ہو یا جو تقریر زیادہ عمدہ کر سکتا ہو بلکہ اسے کہتے ہیں جو نازک وقت پر درست فیصلہ کرنے کی اہلیت رکھتا ہو۔ حزب اسلامی حکمتیار گروپ افغانستان کی جماعت اسلامی تھی لیکن جب طالبان کابل میں آئے تو قاضی حسین احمد نے یہ نہیں کہا کہ چونکہ ہم سے فکری قربت رکھنے والی جماعت حزب اسلامی ہے لھذا ہم طالبان کو نہیں مانتے بلکہ انہوں نے لڑاکو حکمتیار سے مکمل کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے اپنی مکمل حمایت طالبان کے پلڑے میں ڈالدی اور مرتے دم تک اس پر قائم رہے۔ اسی طرح مولانا شاہ احمد نورانی اور ڈاکٹر اسرار نے بھی مکتبہ فکر کے اختلاف کے باوجود طالبان کی بھرپور حمایت کا اعلان کردیا اور مرتے دم تک اس پر قائم رہے۔ چونکہ مولانا نورانی اور ڈاکٹر اسرار کا افغانستان میں کوئی سٹیک نہ تھا جبکہ قاضی صاحب کا تو بہت بڑا سٹیک تھا لیکن انہوں نے اس سٹیک کو ہمیشہ کے لئے افغانستان اور پاکستان کے مفاد میں قربان کردیا لھذا قاضی حسین احمد مرحوم کا یا اقدام تاریخ ہمیشہ ایک دلیرانہ اور مدبرانہ فیصلے کے طور پر یاد رکھے گی۔ چونکہ افغانستان بہر حال حکمتیار کا گھر تھا اس لئے قاضی صاحب نے یہ خاموش کوشش کی کہ حکمتیار کم از کم افغانستان واپس آ کر رہ سکے اور اس سلسلے میں ملا عمر سے ملاقاتیں ہوئیں جن کا موقف تھا کہ ہمیں حکمتیار سے کوئی دشمنی تو کیا شکوہ بھی نہیں، افغانستان ان کا گھر ہے وہ آئیں اور پوری بے فکری سے یہاں رہیں لیکن چونکہ افغان شہریوں میں ان کا ایک بہت بڑا حلقہ ہے جس کے وہ قائد رہے ہیں لھذا ان تک یہ کھلا پیغام جانا ضروری ہے کہ حکمتیار نے موجودہ سسٹم کی اطاعت قبول کرلی ہے اور اس پیغام کی شکل یہی ہوگی دیگر سابق اہم کمانڈروں کی طرح وہ بھی میرے ہاتھ پر بیعت کرینگے۔ حکمتیار یہ شرط قبول کرنے کو تیار نہ ہوا چنانچہ قاضی صاحب نے حکمتیار کو ہمیشہ کے لئے چھوڑ دیا۔ حکمتیار آج کل افغانستان میں ہیں اور طالبان کے شانہ بشانہ قابض فورسز سے لڑ رہے ہیں۔ (جاری ہے)

اپنا تبصرہ بھیجیں