پاکستان کی خارجہ پالیسی۔ دوسری قسط

عرب ممالک

سوویت یونین کے دور میں عالم اسلام بھی دو بلاکوں میں بٹا ہوا تھا۔ انقلاب سے قبل کا ایران تو کیپٹل بلاک میں تھا لیکن انقلاب کے بعد کا ایران کمیونسٹ بلاک میں رہا۔ اسی طرح عراق شام، مصر، لیبیا اور جنوبی یمن بھی کمیونسٹ بلاک میں رہے۔ سعودی عرب، کویت، اردن، عرب امارات اور شمالی یمن کیپٹل بلاک میں رہے۔ پاکستان چونکہ خود بھی کیپٹل بلاک میں رہا اس لئے کیپٹل بلاک کے عرب ممالک سے تو اس کے تعلقات بہت مضبوط رہے لیکن کمیونسٹ بلاک کے ممالک کا معاملہ عجیب تھا۔ صدام حسین کو پیپلز پارٹی کے دور میں پاکستان اچھا لگتا تھا جبکہ دیگر ادوار میں برا۔ وہ سیاست میں پیپلز پارٹی کی مالی مدد تو کرتا تھا لیکن پاکستان میں دہشت گردی کبھی نہیں کروائی البتہ کراچی میں 1984ء میں بننے والی سواد اعظم نامی تنظیم کے پیچھے اسی کا ہاتھ جسے پاکستان کے سیکیورٹی اداروں نے ایک سال کے اندر اندر لپیٹ دیا تھا۔ کچھ یہی معاملہ قذافی کا بھی تھا لیکن قذافی نے جنرل ضیاء کے دور میں دہشت گردی کی کوشش بھی کی۔ 80 کی دہائی کا مشہور ہتھوڑا گروپ قذافی ہی کا ڈھکوسلہ تھا۔ مصر کو پاکستان کبھی بھی اچھا نہیں لگا لیکن اس نے کوئی دشمنی بھی نہیں کی۔ پاکستان سے اس کے خار کی بنیادی وجہ جو مجھے سمجھ آتی ہے وہ جماعت اسلامی ہے جو اخوان المسلمین کی دودھ شریک بہن ہے۔ شام نے پاکستان سے عسکری تعلقات بھی رکھے لیکن تھوڑا فاصلہ بھی رکھا ایک طرف پاکستان ایئر فورس کے پائلٹوں کی جنگ میں خدمات اور ان سے تربیت بھی حاصل کی دوسری طرف الذوالفقار کی ہائی جیکنگ میں بھی ملوث نظر آیا۔ پاکستان نے ہمیشہ ان عرب ممالک کے ساتھ بہترین تعلقات بنائے رکھنے کی کوشش کی اور کبھی ایسی کوئی حرکت نہیں کی جس سے کمیونسٹ بلاک کے ممالک کو ناراضگی ہوئی ہو۔

دونوں جانب کے برادر اسلامی ملکوں سے تعلقات استوار رکھنے میں سنجیدگی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتاہے کہ 1967ء اور 1973ء کی عرب اسرائیل جنگوں میں پاک فضائیہ کے پائلٹوں نے بھی حصہ لیا۔ پہلی جنگ میں پاکستان کے پائلٹ مصر، اردن اور شامی فضائیہ کی طرف سے لڑنے گئے ان میں سے اردن کیپٹل بلاک جبکہ مصر اور شام کمیونسٹ بلاک کے ممالک تھے۔ اس جنگ میں لڑتے ہوئے پاکستانی پائلٹوں نے دس اسرائیلی طیارے مار گرائے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ پاکستانی پائلٹ اس کے صرف تین طیارے گرانے میں کامیاب رہے تھے۔ دوسری عرب اسرائیل جنگ میں پاک فضائیہ کے پائلٹ ایک بار پھر ان تینوں ملکوں میں پہنچے۔ پاکستانی پائلٹ مصر پہنچے تو مصر جنگ بندی کا اعلان کر چکا تھا البتہ اردن اور شام ابھی حالت جنگ میں تھے۔ ان دونوں ممالک کی جانب سے لڑتے ہوئے پاکستانی پائلٹوں نے پانچ اسرائیلی طیارے گرائے۔ ان میں سے بالخصوص فلائٹ لیفٹنٹ عبد الستار علوی کو شام نے ہیرو ڈیکلیئر کیا اور ایوارڈ سے بھی نوازا۔ جنگ کے اختتام پر شام نے ان پاکستانی پائلٹوں کی خدمات اپنی فضائیہ کی ٹریننگ کے لئے طلب کر لیں جسے پاکستان نے منظور کر لیا یوں یہ پائلٹ 1976ء تک شام میں رہے۔ پاک فضائیہ اور شامی فضائیہ کے تعلقات کا پاکستان کو یہ فائدہ ہواکہ شامی فضائیہ کے پاس رشین طیارے تھے چونکہ انڈین ایئرفورس بھی رشین طیاروں پر مشتمل تھی تو پاک فضائیہ کے پائلٹ ان طیاروں پر بھی دسترس حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے جس سے ان طیاروں کی تمام خوبیاں اور خامیاں ان کے علم میں آگئیں جو جنگ کے موقع پر کار آمد ہوتیں۔ اس زمانے میں پاکستان واحد ملک تھا جس کی فضائیہ امریکی و فرانسیسی ہی نہیں بلکہ رشین طیاروں کی مہارت سے بھی لیس تھی۔

مجموعی طور پر اگر ہم دیکھیں تو پاکستان کی خارجہ پالیسی کا رجحان عرب ممالک کے لئے یکساں احترام کا رہا ہے لیکن ان میں سے صرف سعودی عرب ہے جس نے پاکستان کے ساتھ مخلص سگے بھائی جیسا غیر متزلزل تعلق رکھا ہے جبکہ دیگر عرب ممالک کا رویہ پاکستان سے سوتیلوں بھائیوں جیسا رہا ہے ان میں سے بعض تو برادران یوسف بھی ثابت ہوتے رہے ہیں لیکن پاکستان نے جوابا انہیں سبق سکھانے کی کوشش کبھی نہیں کی بلکہ اس بڑے بھائی کا کردار ادا کیا جو کہدیتا ہے “چلو خیر ہے چھوٹا ہے” ان تمام ممالک سے تعلقات ہر حال میں ٹھیک رکھنے کی کوشش کے پیچھے یہ سوچ کار فرما ہے گریٹر اسرائیل کی راہ روکنے کی ذمہ داری پاکستان ہی کو نبھانی ہے اور دفاعی ضرورت کے پیش نظر ان میں سے کسی بھی ملک میں جنگ کے موقع پر جانا پڑ سکتا ہے لھذا ان سے تعلقات اس سطح کے رکھے جائیں کہ ایمرجنسی میں نہ انہیں بلانے میں ہچکچاہٹ ہو اور نہ پاکستان کو جانے میں۔ عربوں کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ متوازن سماج کی اہمیت سے قطعی نا بلد ہیں۔ علمی و سائنسی ترقی کی دور دور تک کوئی سوچ نہیں پائی جاتی۔ انکے نزدیک انسان کی بنیادی ضرورتیں تین ہیں۔ اچھی شراب، اچھی عورت اور اچھی مسجد۔ اب چونکہ یہ تینوں چیزیں انہیں وافر دستیاب ہیں تو وہ سوچتے ہیں کہ عالم اسلام تاریخ کے ترقی یافتہ ترین دور میں ہے۔ ان کی انہی احمقانہ حرکتوں کے نتیجے میں امریکہ اور برطانیہ انہیں رج کے لوٹ رہے ہیں اور اسرائیل خود کو دن بدن گریٹر اسرائیل بنانے کی پوزیشن میں لا رہا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ اسرائیل کی پیش قدمی روکے رکھنے کے لئے بھی پاکستان ہی کو تدبیریں کرنی پڑتی ہیں۔ نام نہاد امن پسند کہہ سکتے ہیں کہ اگر اسرائیل گریٹر اسرائیل بنتا ہے تو بنے، ہمیں اس سے کیا غرض ؟ اس پر اگلی قسط میں تفصیل سے روشنی ڈالونگا اور واضح کرونگا کہ پاکستان کی قومی سلامتی پالیسی میں اس کے چار دشمن ممالک کی فہرست میں اسرائیل نمبر ایک اور بھارت نمبر تین پر کیوں ہے ؟ (جاری ہے)

اپنا تبصرہ بھیجیں