پرائز بانڈ کی انعامی رقم کا حکم

فتویٰ نمبر:475

سوال:کیا پرائز بانڈ سے نکلنے والے انعامی روپے حلال تصور کیے جائیں گے؟
اور کیا ان روپوں سے عمرہ حج یا فلاحی بہبود کا کام کرنا جائز ہے؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب حامداً و مصلیاً
مرَوّجہ پرائز بونڈ پر ملنے والا انعام سود ہے لہٰذا انعام حاصل کرنے کی نیت سے پرائز بونڈ خریدنا جائز نہیں ہے، تاہم اگر کسی نے اتفاق سے پرائز بونڈ خرید لئے تو انہوں فورا واپس کردے، اوراگر ان پرانعام بھی نکل آئے تو اس کو وصول کرنا اور اپنے استعمال میں لاناحلال نہیں ہے جتنی رقم کے انعامی بونڈ ہیں بس اس قدر رقم واپس لے سکتے ہیں اور باقی رقم اگر وصول کر لی ہے تو ثواب کی نیت کے بغیر کسی ایسے غریب کو جس کے پاس نصابِ زکوۃکےبرابرمالیت نہ ہومالک بنا کر دینا ضروری ہے۔نیز کسی رفاحی ادارے میں بھی یہ رقم دے سکتے ہیں یا کسی رفاحی کام میں بھی خرچ کرسکتے ہیں لیکن ان کاموں کی غرض سے جیسے سودی بینک میں بچت اکاؤنٹ کھلوانا جائز نہیں ہے اسی طرح ان مقاصد کیلئے پرائزبونڈ لینا بھی جائز نہیں۔

[البقرة : 278]
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ
صحيح مسلم – (2 / 27 ط: قدیمی کتب خانة)
عن جابر قال : لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا وموكله وكاتبه وشاهديه وقال هم سواء.
في بحوث في قضايا فقهية معاصرة – مفتي تقي عثماني – (2 / 159)
ويوجد في عصرنا نوع اخر من الجوائز وهو ما يعطى لحاملي السندات الحكومية (PRIZ BONDS) على أساس القرعة . والحكم الشرعي لهذه الجوائز موقوف على معرفة حقيقة هذه السندات .وحقيقتها أن الحكومة ربما تحتاج الى الاستقراض من عامة الشعب…وان هذه السندات تكون ربوية عادة بحيث ان الحكومتة تضمن لصاحبها أن تعيد اليه مبلغ القرض مع الفائدة الربوية.
أحكام المال الحرام – مفتي تقي عثماني – (1 / 2)
أما فى بيان القسم الأول، نعبر عن جميع العقود الباطلة فيما يأتى بالمغصوب والذى يقبض هذاالمال الحرام بالغاصب. وذلك لسهولة التعبير. ويشمل هذا التعبير كل مال حرام لايملكه المرأ فى الشرع، سواء كان غصبا أو سرقة أو رشوة أو ربا فى القرض، أو مأخوذا ببيع باطل.
وإنه حرام للغاصب الانتفاع به أو التصرف فيه، فيجب عليه أن يرده إلى مالكه، أوإلى وارثه بعد وفاته، وإن لم يمكن ذلك لعدم معرفة المالك أو وارثه، أولتعذر الرد عليه لسبب من الأسباب ، وجب عليه التخلص منه بتصدقه عنه من غير نية ثواب الصدقة لنفسه.
واللہ تعالی اعلم بالصواب
محمدعاصم عصمہ اللہ تعالی

اپنا تبصرہ بھیجیں