قضاء نماز پڑھنے کا طریقہ

سوال: ایک مسئلے کے متعلق بتائیں کہ بعض عورتیںکہتی ہیں  کسی خاص دن 2 دو رکعت نفل پڑهنے سے جتنی بهی نمازیں قضا ہو ئی ہیں وه سب ادا ہو جائیں گی  کیا اس طرح نفل پڑهنے سے ہماری تمام قضا نمازیں واقعی ادا ہو جائینگی  اس کا جواب درکار ہے ؟

فتویٰ نمبر:312

جواب: یہ  بات درستنہیں  ہے کہ  2 رکعت نفل پڑهنے سے تمام قضاء نمازیں ادا ہو جائینگی بلکہ تمام قضاء نما زیں ادا کرنی ہونگی اس کا پڑهنا واجب ہے جو لوگ اس طرح کی باتیں کرتے هیں ان کی بات شریعت کے خلاف هے.
اور نہ ہی ایسی کوئی صحیح روایت موجود ہے جس سے یہ ثابت ہو جائے کہ  2 رکعت نفل پڑهنے سے تمام قضا نمازیں ادا ہوجائی گی.

* فتاوی محمودیه ج1 *

* قضاء نماز پڑهنے کا طریقہ *
=================

قضاء نمازوں کو پڑهنے کا طریقہ وہی ہے جو ادا نمازورں کا ہے.
صرف نیت میں ” قضاء ” نماز کا خیال کرنا هوگا اگر قضاء نمازیں بہت زیاده ہیں اور ان کی تعداد بهی معلوم نہیں ہے تو اس کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ ایک تعداد اندازے سے مقر ر کرلیں مثلا:

کسی نے دو سال سے نمازیں قضاء کی ہو ں یا جس عمر سے نماز فرض ہوئی ہے اندازے سے معلوم کرے کہ اتنے سالوں سے نمازوں کی ادائیگی میں کوتاہی  کی ہے .
پهر ہر وقتی نماز کے ساتھ  ایک یا جتنی ہو سکیں قضاء نمازیں بهی اس کے ساتھ  پڑهتے رہیں.

اور ہر  نماز کی قضاء کرتے وقت یہ نیت کرلیں کہ اس وقت کی مثلا ظہر کی جتنی نمازیں آپ کے ذمہ ہیں ان میں سے پہلی قضاء پڑهتا پڑھتی ہوں یعنی دل میں اراده کرے کہ ان قضاء نمازوں میں جو پہلی ہے  وه قضاء کر رہا /کر رہی ہوں
اسی طرح دوباره جب قضاء پڑهیں تو پهر اس وقت کی قضاء نماز مثلا ، عصر ، فجر یا جو بهی ہو وه کہ کر اس وقت کی جتنی نمازیں میرے ذمہ ہیں ان میں سے پہلی قضاء پڑه رهی ہوں. 
جتنی رکعتیں اصل ادا نماز کی ہیں اتنی ہی رکعتیں قضاء نماز کی پڑهنی ہیں .

فرض نماز کے علاوه  نماز وتر واجب ہے اس کی بهی قضاء پڑهنی ضروری ہے .

سنتوں کی قضاء نہیں صرف نماز فجر کی سنتیں اسی دن میں اشراق کا وقت شروع ہونے سے لے کر اسی دن کے زوال تک قضاء پڑه سکتے ہیں  اس دن میں زوال کے بعد وه بهی نہیں  ہے .
قضاء نماز ہر وقت ادا کرسکتے ہیں صرف تین مکروه اوقات کے علاوه باقی جس دن جس وقت چاہیں ادا کرسکتے ہیں.

1__ سورج طلوع ہونے کے وقت.
2__ عین زوال کے وقت جب سورج بالکل اوپر ہو .
3__ سورج کے غروب ہو نے کے وقت .

* شرح التنویر: ج2 ص76،77 ،66 __ فتاوی عالمگیری: ج1 ص131 *
————————————————————————

حضرت انس بن مالک رضی الله عنه کی روایت هے که فرمایا رسول الله صلی الله علیه وسلم نے:

( من نسی صلاته او نام عنها فکفارتها ان یصلیها اذا ذکرها )
صحیح مسلم: ج1 ص411 )

جو شخص نماز ادا کرنا بهول گیا یا سوگیا تو اس کا کفاره یہ ہے  که یاد آنےپر نماز قضا کرلے.

ایک روایت میں آپ صلی الله علیه وسلم کا یه ارشاد مروی هے.
( اذا رقد احدکم عن الصلوته او غفل عنها فلیصلها اذا ذکرها فان الله یقول ، اوقم الصلوته لذکری….. سوره طه 14 )

اگر تم میں سے کوئی آدمی سوگیا یا نماز ادا کرنا بهول گیا تو یاد آنے پر قضا کر لے کیونکہ

الله تعالی کا فرمان ہے  ” اور میرے ذکر کے لئے نماز قائم کرو “

لا کفارته لها الا ذلک واقم الصلاته لذکری ……. نهیں کفاره هے مگر یهی  پهر راوی نے دلیل کے طور پر آیت اقم الصلوته لذکری پڑهی.

( صحیح بخاری شریف ، باب من نسی صلوته فلیصل اذا ذکر ص84 نمبر 597 )
ابوداود شریف ، باب فی من نام عن صلوته او نسیها ص70نمبر 435 )
اس حدیث اور آیت سے معلوم هوا که فوت شده نماز پڑهنا فرض ہے
 قضاء نماز کا فدیہ موت کے بعد 

ہر نماز کے بدلے صدقہٴ فطر کی مقدار فدیہ ہے صدقہٴ فطر کی مقدار غلہ یعنی پونے دو کلو گندم یا اس کی قیمت دینا بھی صحیح ہے اور وتر مستقل نماز ہے، اس لئے ہر دن کے چھ فدیے ہوئے، یہ فدیہ اگر کوئی شخص اپنے مال سے ادا کرے تو ٹھیک ہے، اور اگر مرحومہ کے ترکے میں سے ادا کرنا ہو تو اس کے لئے یہ شرط ہے کہ سب وارث بالغ اور حاضر ہوں اور وہ خوشی سے اس کی اجازت دے دیں۔ یہ اس صورت میں ہے جبکہ مرحوم یا مرحومہ نے فدیہ ادا کرنے کی وصیت نہ کی ہو۔
اگر وصیت کی ہو تو اس کے تہائی ترکہ سے تو وارثوں کی رضامندی کے بغیر فدیہ ادا کیا جائے گا، اور تہائی مال سے زائد فدیہ ہو تو اس کے لئے وہی شرط ہے جو اُوپر لکھی گئی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں