سواریاں دوسری گاڑی  والے کو  دے کر کمیشن لینا

دارالعلوم کراچی فتویٰ نمبر:83

سوال: ایک ڈرائیور اپنے باری پر اڈے سے گاڑی  میں سواریاں بٹھا کر گاڑی اڈے سے باہر نکالتا ہے  ۔ باہر دوسری  گاڑی کھڑی ہوتی ہے  جس کی  باری نہیں ہوتی ۔وہ اپنی سواریاں اس دوسری  گاڑی و الے کو حوالہ  کردیتا ہے اور اس کے  ڈرائیور  سے کمیشن  لے کر دوبارہ اڈے میں اپنے نام کا اندراج  کرتا ہے  اور از سر نو اپنی باری کا انتظار کرتا ہے آگے نکلی  ہوئی گاڑیوں کے واپس پہنچنے میں  چونکہ دیر ہوتی ہے  اس لیے اس کی بارے پہلے آتی ہے ۔ حالانکہ  اگر وہ اپنی منزل مقصود  تک پہنچ کر  واپس آتا   تو ا  س کی باری  بعد میں آتی۔ جس سے بظاہرا س اڈے  سے دوسری نکلنے والی گاڑیوں کو نقصان ہے، کیونکہ ان کی  باری میں تاخیر  آجاتی ہے ۔ا زروئے شریعت  اس کا کیا حکم ہے  اور ا س کی فقہی  تکییف کیاہے ؟

 ( سائل :ناصر گل ،طالب العلم جامع المرکز الاسلامی بنوں  )

الجواب حامداومصلیا ً

اگر کوئی عذر مثلا گاڑی  کا خراب ہونا  وغیرہ نہ ہوتو سواریوں  کی اجازت کے بغیر ایسا کرنا جائز نہیں کیونکہ  سواریوں اور ڈرائیور کے درمیان  اجارہ عقد  ہے جو منعقد ہونے کے بعد لازم ہوجاتا ہے  اور بغیر عذر  کے کسی  ایک فریق  کو یکطرفہ  طور پر ختم  کرنے کا اختیار نہیں ہوتا  ،البتہ سواری اگر  راضی ہو توسواریوں  کا اجارہ پہلی گاڑی  کے ڈرائیور کے ساتھ ختم  ہو کردوسری گاڑی کے ڈرائیور سے منعقد ہوجائے گا  اوراس صورت  میں پہلی گاڑی  کے ڈرائیور کا  دوسری گاڑی کے ڈرائیور  سےکمیشن   کے نام پر رقم لینا  نزول عن الحق بما ل کی رو سے  جائز ہے، لیکن  اگر ایسا کرنا اڈے کے ضابطے  کے خلاف  اوردوسروں  کونقصان پہنچانے کا سبب ہے  تو معاہدہ کی خلاف ورزی اوردوسروں کو نقصان پہنچنے کی وجہ سے ایسا کرنا جائز نہیں لہذا کمیشن  کے نام پر جو رقم لی وہ دوسری گاڑی کے ڈرائیور کو واپس کرنا ضروری ہے ۔

فی البدائع : لان الاجارۃ عقدلازم الا تری ان احد العاقدین لاینفرد بالفسخ من غیر عذر۔ (6/146)

فی الدر المختار  : وعلیہ فیفتی  بجواز النزول عن الوظائف  بمال ۔ ( 4/519)

واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم 

دارالافتاء دارالعلوم کراچی

اپنا تبصرہ بھیجیں