سورۃ الانفال اعداد وشمار، وجہ تسمیہ اور مرکزی موضوع

سورۃ الانفال
اعداد وشمار:
8 عددسورت باعتبار مصحف
88غزوہ بدر کے فورا بعد عددسورت باعتبار نزول
9 اور10 عددپارہ
75 تعدادآیات
1243 الفاظ کی تعداد
5299 حروف کی تعداد
وجہ تسمیہ:
انفال جمع ہے نفل ،نفل کے معنی ہیں زیادتی ۔اصطلاح میں نفل یا انفال مال غنیمت کو کہاجاتا ہے جو جہاد کے موقع پر کفار سے حاصل ہوتا ہے۔اس سورت میں مال غنیمت کی تقسیم کے اصول بتائے گئے ہیں اس لیے اس کا نام انفال رکھاگیا۔
مرکزی موضوع:
یہ سورت جہاد کے ترانوں میں سے ہے۔ جہاد کے موقع پر اسے مجاہدین کے سامنے پڑھنا اور اسے سمجھانامستحب ہے۔جہاد کے آداب ، مال غنیمت کی تقسیم کے اصول اور جہاد میں فتح ونصرت کے قوانین اس سورت کا موضوع ہیں۔
خلاصہ مضامین
حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب نے “آسان ترجمہ قرآن ” کے اندر سورہ انفال کا جو خلاصہ تحریر فرمایاہے اس کےچند اہم نکات کو اپنی ترتیب سےکچھ اضافات کے ساتھ نمبروارلکھاجارہا ہے:
1۔یہ سورت تقریباً سن ۲ہجری کے آس پاس مدینہ منورہ میں نازل ہوئی ہے۔
2۔اس کے بیشتر مضامین جنگ بدر اوراس کے واقعات اور مسائل سے متعلق ہیں، یہ جنگ اسلام اورکفر کے درمیان پہلے باقاعدہ معرکے کی حیثیت رکھتی ہے،جس میں اللہ تعالی نے مسلمانوں کو فتح مبین عطا فرمائی اور قریش مکہ کوذلت آمیز شکست سے دوچار کیا۔ سورت میں اللہ تعالی نے جنگ بدرکےاندر اپنے انعامات یاد دلائے ہیں۔
3۔سورت کے بہت سے مضامین جنگ بدر کے مختلف واقعات سے متعلق ہیں ،اس لیے ان مضامین کو ٹھیک ٹھیک سمجھنے کے لیے اس جنگ کے بارے میں بنیادی معلومات جاننا ضروری ہے؛ تاکہ اس سے متعلق آیات کو ان کے صحیح پس منظر میں سمجھا جاسکے۔
اس کامختصر پس منظر یہ ہے کہ کفارمسلمانوں کے ساتھ مسلسل حالت جنگ میں تھے۔ایک دوسرے کوچیلنج دیے ہوئے تھے۔دوسراکفارمکہ ریاست مدینہ کی فاؤنڈریشن کوتسلیم نہیں کرتے تھے اور ریاست کی زمینی راستوں کوبغیر کسی ضابطہ کے استعمال کررہے تھے اس لیےاس قافلے پر حملہ بالکل جائز اور عین اصول کے مطابق تھا۔
غزوۂ بدرمنگل17رمضان2ہجری کوپیش آیا۔ویسے ابوسفیان کےتجارتی قافلے کاتعاقب مقصود تھا لیکن وہ نکل گیا اور قریش کا بڑالشکر ابوجہل کی سربراہی میں مقابلے کے لیے آگیا۔ صحابہ کرام کی تعداد313تھی جبکہ کفار کی تعداد 1000۔اس معرکۂ حق وباطل میں 14 مسلمان شہید ہوئے جبکہ کفار کوبھاری نقصان اٹھاناپڑا۔ان کے 70 سردار مارے گئےجس میں ابوجہل اور امیہ بن خلف بھی شامل ہیں اور ستر قید ہوئےجنہیں بعد میں فدیہ لے کر چھوڑاگیا۔
4۔مسلمانوں نے جس جاں نثاری کے ساتھ یہ جنگ لڑی اس کی ہمت افزائی کے ساتھ بعض ان کمزوریوں کی بھی نشان دہی فرمائی گئی ہے جو اس جنگ میں سامنے آئیں۔
5۔آئندہ کے لیے وہ ہدایات دی گئی ہیں جو ہمیشہ مسلمانوں کی کامیابی او رفتح ونصرت کا سبب بن سکتی ہیں۔
6۔جہاد اور مال غنیمت کی تقسیم کے بہت سے احکام بیان ہوئے ہیں۔
7۔چونکہ جنگ بدر اصل میں کفار مکہ کے ظلم وستم کے پس منظر میں پیش آئی تھی ،اس لیےان حالات کا بھی ذکر کیاگیا ہے جن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ مکرمہ سے ہجرت کا حکم ہوا۔
8۔جو مسلمان مکہ مکرمہ میں رہ گئے تھےان کے لیے ضروری قرار دیاگیا ہے کہ وہ ہجرت کرکے مدینہ منورہ آجائیں۔ (کیونکہ آج کل ایسے حالات نہیں اس لیے ہجرت فرض بھی نہیں۔مرتب)
9۔ہجرت کے وجہ سے میراث کی تقسیم سے متعلق کچھ احکام عارضی طور پر نافذ کئے گئے تھے (گو کہ یہ احکام بعد میں کالعدم قرار دے دیے گئے۔)
10۔سورت کے آخر میں میراث کے کچھ مستقل احکام دیے گئے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں