سورۃ یونس میں مشرکین کے اعتراضات اور ان کے جواب

1۔ مشرکین مکہ ایک انسان کے نبی بنائے جانےپر حیران تھے اور اسے خواہ مخواہ جادوگری کا الزام دے رہے تھے۔ {أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا أَنْ أَوْحَيْنَا إِلَى رَجُلٍ مِنْهُمْ أَنْ أَنْذِرِ النَّاسَ وَبَشِّرِ الَّذِينَ آمَنُوا أَنَّ لَهُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّهِمْ قَالَ الْكَافِرُونَ إِنَّ هَذَا لَسَاحِرٌ مُبِينٌ} [يونس: 2]
جواب یہ دیا گیا کہ جس رب نے اس کائنات کو پیدا کیا ، ا س کے نظام اور اس کے قوانین وضع کیے کیا وہ انسان کی روحانی تربیت کے نظام کو خالی چھوڑدیتا؟ہرگز نہیں ، اور انسانوں کی روحانی تربیت انسانوں ہی کےذریعے ممکن ہے،کیونکہ انسان اس سے سیکھتا ہے جو اس کے سامنے ہو جسے دیکھ دیکھ کروہ سیکھتا رہے۔دوسرایہ کوئی پہلی بار نہیں ہوا، بلکہ ہر دور میں نبی اور رسول انسانوں ہی میں سے بھیجے گئے ہیں۔
تیسری بات یہ ہے کہ نبی کریمﷺ جو بات پیش کر رہے ہیں اس میں کوئی چیز بھی نہ تو عجیب ہے اور نہ سحر و کہانت سے تعلق رکھتی ہے۔ وہ تو جن حقیقتوں سے تم کو آگاہ کر رہے ہیں ان کے حق ہونے میں کوئی شک وشبہ نہیں۔ان کی دعوت یہ ہے کہ جو خدا اس کائنات کا خالق ہے اور اس کا انتظام چلا رہا ہے صرف وہی تمہارا مالک و آقا ہے اور تنہا اسی کا یہ حق ہے کہ تم اس کی بندگی کرو۔دوسرے یہ کہ موجودہ دنیوی زندگی کے بعد زندگی کا ایک اور دور آنے والا ہے جس میں تم دوبارہ پیدا کیے جاؤ گے، اپنی موجودہ زندگی کے پورے کارنامے کا حساب دو گے ۔
2۔ان کفار کا ایک اعتراض یہ تھا کہ اگر ہم غلط ہیں تو ہم پر عذاب کیوں نہیں آجاتا؟{ وَلَوْ يُعَجِّلُ اللَّهُ لِلنَّاسِ الشَّرَّ اسْتِعْجَالَهُمْ بِالْخَيْرِ لَقُضِيَ إِلَيْهِمْ أَجَلُهُمْ فَنَذَرُ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ } [يونس: 11]
اس کاجواب سورہ یونس اور دیگر مختلف موقعوں میں یہ دیا گیا ہے کہ اللہ تعالی پہلے مہلت دیتے ہیں تاکہ بند ہ اللہ تعالی کے دلائل میں سوچ وبچار کرسکے ۔اگر اللہ تعالی فورا عذاب دے دے تو اس میں تمہارا ہی نقصان ہے ۔دوسرا یہ کہ اس کے ہاں ہر چیز کاوقت مقرر ہے ، تمہارے کہنے سے عذاب نہیں آئے گا بلکہ اس کا جو وقت اللہ کے علم میں ہے اس کے مطابق آئے گا، تم سے پہلے بھی بہت سی قوموں نے ایسے اعتراضات کیے تھے لیکن جب عذاب آیا تو کوئی ان کو بچا نہ سکا۔
3۔ان کا ایک اعتراض قرآن پر تھاکہ اس میں بتوں کے خلاف باتیں ہیں ، شرک کے خلاف اور مشرکانہ رسوم ورواج کے خلاف باتیں ہیں جس سے قوم میں انتشار پھیلتا ہے لہذا اس کی ان آیات کو حذف کردینا چاہیے یا بدل دینا چاہیے۔ { قَالَ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا ائْتِ بِقُرْآنٍ غَيْرِ هَذَا أَوْ بَدِّلْهُ قُلْ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أُبَدِّلَهُ مِنْ تِلْقَاءِ نَفْسِي إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَى إِلَيَّ إِنِّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِي} [يونس: 15]
ان کو یہ جواب دیا گیا کہ یہ قرآن میری لکھی ہوئی کتاب اور اسلام میرا خود ساختہ مذہب نہیں ہے جس کو میں لوگوں کی خواہشات اور پسند ناپسندکی بنیاد پر خود سے بدلتا پھروں ، بلکہ یہ تو اللہ کا کلام ہے ، اسلام اللہ کانظام ہے ،اس میں تحریف وتبدیلی درحقیقت منصب نبوت کے ساتھ خیانت ہوگی اور خود میرے بے داغ اور صاف شفاف کردار پر جھوٹ اور خیانت کابدنما داغ لگ جائے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں