موسم کو برا بھلا کہنے کا حکم

سوال:محترم جناب مفتیان کرام! السلام علیکم و رحمة الله وبركا ته!کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ موسم کو برا بھلا کہنے کا کیا حکم ہے؟ مثلا جیسے ہم کہتے ہیں سردیاں تو بڑی مصیبت ہیں ۔ کچھ کام نہیں ہوپاتا ۔ عذاب لگتی ہیں سردیاں وغیرہ ۔

کیا یہ بھی اسی حکم میں شامل ہیں جس میں زمانے کو برا بھلا۔کہنے سے منع کیا گیا ہے۔

الجواب باسم ملهم الصواب

وعلیکم السلام و رحمة الله!

واضح رہے کہ اللہ کی ذات حکیم ذات ہے اور حکیم ذات کے ہر فیصلہ میں حکمت پوشیدہ ہوتی ہے،لیکن انسان اپنی ناقص عقل سے حکمت نہیں جانتا اور برا بھلا کہنا شروع کردیتا ہے۔

چنانچہ تمام موسموں میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکمتیں پوشیدہ ہیں اور اللہ تعالیٰ نے انھیں درست وقت پر رکھا ہے ،اگر کوئی شخص کسی بھی موسم کو برا کہے گا تو گویا وہ بنانے والے کو برا کہہ رہا ہے۔لہذا جس طرح زمانے کو برا کہنا منع ہے، اسی طرح موسم کو بھی برا کہنا منع ہوگا۔ چنانچہ حدیث میں زمانے اور ہوا کو برا بھلا کہنے سے منع فرمایا ہے۔

==============

حوالہ جات

1-اِنَّ  فِیْ  خَلْقِ  السَّمٰوٰتِ  وَ  الْاَرْضِ   وَ  اخْتِلَافِ  الَّیْلِ  وَ  النَّهَارِ  لَاٰیٰتٍ  لِّاُولِی  الْاَلْبَابِۚۙ(سورة آل عمران 190)

ترجمہ : بیشک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات اور دن کی باہم تبدیلی میں عقلمندوں کے لئے نشانیاں ہیں۔

2-يُؤْذِينِي ابْنُ آدَمَ يَسُبُّ الدَّهْرَ وَأَنَا الدَّهْرُ، أُقَلِّبُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ. (صحیح البخاری، ح:4826)

ترجمہ : آدمی مجھے ایذا دیتا ہے برا کہتا ہے زمانے کو اور میں خود زمانہ ہوں۔ (یعنی زمانے سے کوئی کام نہیں ہوتا بلکہ کام کرنے والا میں ہوں) پلٹتا ہوں رات اور دن کو۔“

3-الريح من روح الله، تاتي بالرحمة، وتاتي بالعذاب، فلا تسبوها، وسلوا الله خيرها، وعوذوا من شرها‏.‏“(أبوداؤد، كتاب الأدب: 5097)

ترجمہ : ہوا اللہ کی رحمت ہے جو رحمت لاتی ہے اور عذاب لے کر آتی ہے، لہٰذا تم اسے برا بھلا مت کہو، اور اللہ سے اس کی خیر کا سوال کرو، اور اس کے شر سے پناہ طلب کرو۔

🔸و اللہ سبحانہ اعلم🔸

بقلم:

قمری تاریخ: 16 جمادی الاخری 1443ھ

عیسوی تاریخ: 20 جنوری 2022ء

اپنا تبصرہ بھیجیں