عورتوں کے لیے ٹیچنگ کی جاب کرنا

سوال: محترم جناب مفتیان کرام!
السلام علیکم و رحمۃ الله و بركاته!

کیا عورتوں کے لیے ٹیچنگ کی جاب کرنا جائز ہے؟
اور اگر کسی لڑکی نے عالمہ کورس کیا ہو، اور اُسکی بنیاد پر سکول میں ٹیچنگ کرتی ہو تو کیا ایسا کرنا جائز ہے، کہ اپنے دینی علم پر دنیا کمانا ؟

الجواب باسم ملہم الصواب
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
جس طریقےسے عالمہ کے لیے علم حاصل کرنے کے بعد مدرسہ میں پڑھانا اور اس پر تنخواہ لینا جائز ہے اسی طرح سے اُس کے لیے اسکول میں شریعت کی پابندی کرتے ہوۓ جائز مضامین پڑھانا اور تنخواہ لینا جائز ہے ۔یہ علم کے ذریعے دنیا کمانے کے زمرے میں نہیں آتاہے۔
لیکن اس کے لیے کچھ شرائط ہیں:

1۔مخلوط ماحول نہ ہو۔

2۔علم دین کے ذریعے دنیا کمانا مقصود نہ ہو بلکہ اپنی عزت وآبرو کی حفاظت کی نیت کے ساتھ بچوں میں دینی رجحان پیدا کرنے اور راہ راست پر لانے کا جذبہ ہو ۔

3۔غیر محرم مردوں اوربالغ لڑکوں سے بلا ضرورت کسی قسم کی بات چیت نہ ہو۔اگر بات کرنا ضروری ہو تو لہجے میں سختی رکھ کر بات چیت کی جائے۔

4۔ مکمل شرعی پردے کا اہتمام ہو۔

5۔بالغ یا قریب البلوغ لڑکوں کو نہ پڑھایا جائے۔
ان شرائط کے ساتھ پڑھانے کی گنجائش ہے۔
واضح رہے کہ پردے کی پابندی کے ساتھ بھی عورت کے لیے بلا ضرورت گھر سے باہر نکلنا مناسب نہیں ہے۔اور اگر عورت کی مالی ضروریات پوری ہوتی ہوں تو اُس کے لیے بہتر ہے کہ گھر پر رہ کر بچوں کو پڑھا لے بلا ضرورت گھر سے باہر نہ نکلے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
1-وقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ ِ
ترجمہ:اور اپنے گھروں میں قرار کے ساتھ رہو۔
سورة الاحزاب:34)

2)  عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَا يَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَأَةٍ، فَإِنَّ الشَّيْطَانَ ثَالِثُهُمَا
(مسند احمد15696)
ترجمہ: خبردار کوئی مرد کسی غیر محرم کے ساتھ خلوت میں نہ بیٹھے کیونکہ ان کے ساتھ تیسرا شخص شیطان ہوتا ہے ۔

3۔عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْمَرْأَةُ عَوْرَةٌ فَإِذَا خَرَجَتْ اسْتَشْرَفَهَا الشَّيْطَانُ ۔(جامع ترمذی کتاب الرضاع 1173)
ترجمہ :نبی اکرمﷺ نے فرمایا:’ عورت (سراپا) پردہ ہے، جب وہ باہر نکلتی ہے تو شیطان اس کو تاکتا ہے’۔ (سنن ترمذی رضاعت کے احکام ومسائل ۔ )

4۔ ”فإنا نجيز الكلام مع النساء الأجانب ومحاورتهن عند الحاجة إلى ذلك، ولانجيز لهن رفع أصواتهن ولا تمطيطها ولا تليينها وتقطيعها؛ لما في ذلك من استمالة الرجال إليهن، وتحريك الشهوات منهم، ومن هذا لم يجز أن تؤذن المرأة۔“
(كتاب حاشية ابن عابدين ,رد المحتار ط الحلبي کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ 1 /406 ط: سعید)

5۔ وَعَنْ تَمِيمٍ الدَّارِيِّ عَنِ النَّبِيِّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – قَالَ: حَقُّ الزَّوْجِ عَلَى الزَّوْجَةِ أَنْ لَا تَهْجُرَ فِرَاشَهُ، وَأَنْ تَبَرَّ قَسَمَهُ، وَأَنْ تُطِيعَ أَمْرَهُ، وَأَنْ لَا تَخْرُجَ إِلَّا بِإِذْنِهِ، وَأَنْ لَا تُدْخِلَ عَلَيْهِ مَنْ يَكْرَهُ۔
(مجمع زوائد و منبع الفوائد کتاب النکاح ،ج 4,ص 314)

واللہ اعلم بالصواب
14 شوال 1444ھ
5 مئ 2023

اپنا تبصرہ بھیجیں