بیٹے کو عاق کرنا

میرے ماموں کہتے ہیں کہ میں نے اپنے بیٹے کو اپنی تمام جائیداد سے عاق کر دیا ہے۔
میری ممانی بہت پریشان ہیں وہ یہ پوچھنا چاہتی ہیں کہ کیا ایسا کہہ دینے سے واقعی ان کا بیٹا اب اپنے شرعی حصہ سے محروم ہو جائے گا۔
براہ کرم راہنمائی فرما دیجیے۔
الجواب باسم ملہم الصواب
واضح رہے کہ عاق کرنے کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے۔عاق کردینے سے بھی اولاد وراثت سے محروم نہیں ہوگی۔لہذا مذکورہ صورت میں اگر آپ کےماموں نے عاق کر بھی دیا ہے تو پھر بھی ان کے بیٹے کو ماموں کی وراثت میں سے ان کا شرعی حصہ ملے گا۔اگر کوئی وارث اس میں رکاوٹ بنے تو وہ سخت وعید کا مستحق ہوگا۔
حوالہ جات :

1.عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” مَنْ فَرَّ مِنْ مِيرَاثِ وَارِثِهِ ، قَطَعَ اللَّهُ مِيرَاثَهُ مِنَ الْجَنَّةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ”
(ابن ماجہ: 2703)
ترجمہ:انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ` رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اپنے وارث کو میراث دلانے سے بھاگے، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسے جنت کی میراث نہ دے گا“۔
—————————————–
1. الإرث جبري لا يسقط بالإسقاط .
تکملہ رد المحتار :جلد 7صفحہ 505)
————————————
1. الجواب: عاق دو معنی میں مستعمل ہے، ایک معنی شرعی دوسرے عرفی، شرعی معنی تو یہ ہیں کہ اولاد والدین کی نافرمانی کرے، سو اس معنی کی تحقیق میں تو کسی کے کرنے نہ کرنے کو دخل نہیں جو والدین کی بے حکمی کرے، وہ عند اللہ عاق ہوگا، اور اس کا اثر فقط یہ ہے کہ خدا کے نزدیک عاصی ومرتکب گناہ کبیرہ کا ہوگا، باقی حرمانِ میراث اس پر مرتب نہیں ہوتا، دوسرے معنی عرفی یہ ہیں کہ کوئی شخص اپنی اولاد کو بوجہ ناراضی بے حق ومحروم الارث کردے، سو یہ امر شرعاً بے اصل ہے، اس سے اس کا حق ارث باطل نہیں ہوسکتا، کیوں کہ وراثت ملکِ اضطراری وحق شرعی ہے، بلا قصدِ مورث و وارث اس کا ثبوت ہوتا ہے۔ قال اللّٰه تعالى:یُوْصِیْکُمُ اللّٰهُ فِيْ اَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْن۔ الاٰیةاور لام استحقاق کے لیے ہے، پس جب اللہ تعالیٰ نے حقِ وراثت مقرر فرمادیا اس کو کون باطل کرسکتا ہے۔ اور نیز قصّہ حضرت بریرہؓ کا شاہد اس کا ہے کہ حضرت عائشہؓ نے اُن کو خرید کر آزاد کرنے کا ارادہ کیا تھا، اس کے موالی نے شرط کی کہ ولاء ہماری رہے گی، اس پر رسولﷺ نے فرمایا کہ ان کی شرط باطل ہے، اورولاء معتق کی ہے: ’’كما روى النسائي: عن عائشة: أنھا أرادت أن تشتري بریرة للعتق وأنھم اشترطوا ولاء ھا، فذكرت ذلك لرسول اللّٰه ﷺ فقال رسول اللّٰهﷺ: اشتریھا وأعتقیھا؛ فإنّ الولاء لمن أعتق‘‘.  (الحدیث)جب ولاء کہ حق ضعیف ہے، چنانچہ حسبِ فرمودۂ پاک۔ ’’الولاء لحمة كلحمة النسب‘‘. (الحدیث)  ضعف اس کا کافِ تشبیہ سے ظاہر ہے، وہ نفی کرنے سے نفی نہیں ہوتا، پس حقِ نسب کہ اقویٰ ہے، کیوں کر نفی کو قبول کر سکتاہے، پھر جب واضح ہوا کہ اس معنی کا شرعاً کچھ ثبوت نہیں تو اس سے رجوع کی کچھ حاجت و ضرورت نہیں، بعد مرگِ پدرا س کا وارث ہوگا، البتہ محروم الارث کرنے کا طریق یہ ممکن ہے کہ اپنی حالتِ حیات و صحت میں اپنا کل اثاثہ کسی کو ہبہ یا مصارف خیر میں وقف کرکے اپنی ملک سے خارج کردے، اس وقت اس کا بیٹا کسی چیز کا مالک نہیں ہوسکتا.
(امدادالفتاوی: جلد 4 ، صفحہ 365)

2.عاق کرنے سے کوئی لڑکا یا لڑکی عاق نہیں ہوتے یعنی شرعا محروم الارث نہیں ہوتے ۔ یہ ایک فضول خیال لوگوں کے دلوں میں قائم ہو گیا ہے۔
(کفایت المفتی: جلد 5،صفحہ 244)
————————————-
واللہ اعلم بالصواب
22اگست2022
24محرم1444

اپنا تبصرہ بھیجیں