چوڑی ناک کو سرجری کے ذریعہ درست کروانے کا حکم

سوال: (7/239) السلام علیکم !
میرا سوال یہ ہے کہ میری ناک سامنے سے چوڑی ہے اس لیے میں ہمیشہ کمتر محسوس کرتا ہوں، اپنی بڑی ناک کی وجہ سے میں اکثر نئے لوگوں سے ملنے سے گریز کرتا ہوں۔ میر¬ی شادی بھی آنے والی ہے، میں اپنی بیوی کے لیے پرکشش نظر آنا چاہتا ہوں اور اس کے سامنے پراعتماد بھی رہنا چاہتا ہوں۔ کیا ایسی حالت میں ناک کا جزوی آپریشن کرنا گناہ اور حرام ہے؟

الجواب حامداومصلیا
واضح رہے کہ اگر پیدائشی طور پر یا کسی مرض یا حادثے کی وجہ سے جسم میں کوئی عیب پیدا ہوگیا ہوجو بدہیئت اور بدنما معلوم ہوتا ہو، نیزوہ عیب عمر کے تقاضہ کی وجہ سے بھی نہ ہوتو اس عیب کے ازالہ کے لیے سرجری کی بقدر ضرورت گنجائش ہے۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر سائل کی ناک کی ہڈی اتنی بڑی ہوگئی ہو کہ عادتاً لوگوں کی ناک ايسی نہ ہوتی ہو، اور چہرے کی ساخت کی نسبت واقعتاً بدہیئت اور عیب دارمعلوم ہوتی ہو تو اس کو معمول کی حد تک لانےکے لیے كاسمٹك سرجری کروانے کی گنجائش ہے، البتہ اگر ناک کی خلقت فطرت و عادت کے موافق ہو تو اس میں مزید حسن و نکھار پیدا کرنے کے لیےكاسمٹك سرجری کروانا جائز نہیں۔
قرآن پاک میں ہے :
{ لَعَنَهُ اللَّهُ وَقَالَ لَأَتَّخِذَنَّ مِنْ عِبَادِكَ نَصِيبًا مَفْرُوضًا وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُبَتِّكُنَّ آذَانَ الْأَنْعَامِوَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللَّهِوَمَنْ يَتَّخِذِ الشَّيْطَانَ وَلِيًّا مِنْ دُونِ اللَّهِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مُبِينًا}[النساء:118، 119]
ترجمہ : جس کو خدا تعالیٰ نے اپنی رحمت سے دور ڈال رکھا ہے اور جس نے یوں کہا تھا کہ میں ضرور تیرے بندوں سے اپنا مقرر حصہ (اطاعت کا) لوں گا۔ اور میں ان کو گمراہ کروں گا اور میں ان کو ہوسیں دلاؤں گا اور میں ان کو تعلیم دوں گا جس میں وہ چوپایوں کے کانوں کوتراشا کریں گے اورمیں ان کو تعلیم دوں گا جس سے وہ الله تعالیٰ کی بنائی ہوئی صورت کو بگاڑا کریں گے اور جو شخص خدا تعالیٰ کو چھوڑ کرشیطان کو اپنا رفیق بناوے گا وہ صریح نقصان میں واقع ہوگا۔ (بيان القرآن ،ج:1،ص:157)

تفسیر قرطبی : (سورة النساء، آية:119، ج:5)
وهذه الأمور كلها قد شهدت الأحاديث بلعن فاعلها وأنها من الكبائر. واختلف في المعنى الذي نهي لأجلها، فقيل: لأنها من باب التدليس. وقيل: من باب تغيير خلق الله تعالى، كما قال ابن مسعود، وهو أصح، وهو يتضمن المعنى الأول. ثم قيل: هذا المنهي عنه إنما هو فيما يكون باقيا، لأنه من باب تغيير خلق الله تعالى، فأما ما لايكون باقيًا كالكحل والتزين به للنساء فقد أجاز العلماء ذلك مالك وغيره، وكرهه مالك للرجال.
تكملة فتح الملهم (ج:4 ، ص: 195)
والحاصل أن كل ما یفعل من جسم من الزیادة أونقص من أجل الزینة بما یجعل الزیادة أو النقصان مستمرا مع الجسم وبما یبدو منه أنه كان فی أصل الخلقةهكذا فانه تلبیس وتغییر منهي عنه ـ وأما ما تزینت به المرأةمن تحمیر الأیدی أو الشفاه أو العارضیین بما لا یلتبس بأصل الخلقة فإنه لیس داخلا فی النهي عند جمهور العلماء ـ وأما قطع الإصبع الزائدة ونحوها لیس تغییرا لخق الله وإنه من قبیل إزالة العیب أو مرض، فأجازه أكثر العلماء خلافا لبعضهم.
کتاب النوازل :(16/228)
وہ اعضاء جو دیکھنے میں بدصورت معلوم ہوتے ہوں اُن کو درست کرنے کے لئے ایسی سرجری کرانا جس میں دوسرے انسان کا کوئی جزء بدن نہ لگایا جائے ضرورت کے وقت شرعاً درست ہے؛ البتہ محض حسن میں اضافہ کے لئے یا اپنے کو جاذب نظر بنانے کے لئے اس طرح کی سرجری مکروہ ہوگی ، اور کسی بھی صورت میں سرجری کرنے یا کرانے والا محض اس عمل سے ایمان سے خارج نہ ہوگا ، اور نہ اُس کی نماز میں کوئی خلل آئے گا۔۔

اپنا تبصرہ بھیجیں