کرپٹو ٹریڈنگ ، علماء کی آراء

اکثر دوست احباب کرپٹو کرنسی کی تجارت اور لین دین کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ آج اس حوالے سے علماء کرام کی آراء اور کچھ اشکالات کا جائزہ لیتے ہیں۔ ہم بنیادی طور پر ان آراء کی چار اقسام بیان کر سکتے ہیں:

1۔ جو بالکل ناجائز سمجھتے ہیں۔ دار العلوم دیوبند، جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن اور ہندوستان کے مختلف علماء کرام اس کے بالکل ناجائز ہونے کا نظریہ رکھتے ہیں۔ ہمارے یہاں بھی کئی حضرات کا رجحان اسی جانب ہے۔ مصر کا دار الافتاء اور متحدہ عرب امارات کی متعلقہ اتھارٹی بھی اس کو ناجائز قرار دے چکی ہے۔ ان حضرات کے یہاں ناجائز ہونے کے اہم نکات مختصراً یہ ہیں:

• یہ ایک فرضی کرنسی ہے۔ اس نکتے کی بنیاد بعض حضرات کے یہاں تو یہ ہے کہ کمپیوٹرز میں موجود ہر چیز بائنری نمبر ہوتی ہے اور نمبر تو ایک فرضی چیز ہے۔ جبکہ بعض حضرات نے حیران کن طور پر بغیر کسی بنیاد کے اسے فرضی قرار دے دیا ہے۔

• اس کے پیچھے کوئی حکومت نہیں ہے اس لیے اس میں ثمنیت (کرنسی ہونا) نہیں پائی جاتی۔

• اس میں لوگوں کو قیمت کم ہونے کی وجہ سے بہت نقصان ہو جاتا ہے۔

2۔ یہ خود تو جائز ہے لیکن کچھ اضافی وجوہات کی بنا پر ان کا کاروبار جائز نہیں ہے۔ یہ رائے مفتی فراز آدم صاحب اور احمد خزان کی ہے کہ یہ خود تو اثاثہ یا زر (Money) ہے لیکن مقاصد شریعہ یا نقصانات کی وجہ سے کاروبار جائز نہیں ہے۔ بعد ازاں مفتی فراز آدم صاحب نے مختلف کرپٹو ایکسچینجز کو شریعہ سرٹیفکیٹ دیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی رائے تبدیل ہو گئی ہے۔

3۔ بٹ کوائین شرائط کے ساتھ جائز ہے۔ مفتی محمد ابوبکر (ملائشیا) اور مفتی عبد القیوم ہزاروی یہ رائے رکھتے ہیں کہ جن ممالک میں یہ قانوناً جائز ہے وہاں شرعاً بھی جائز ہے۔ مفتی ابراہیم ڈیسائی (کینیڈا) یہ رائے رکھتے ہیں کہ اگر اس کا عام عرف ہو جائے تو یہ جائز قرار پائے گی۔

4۔ یہ مطلقاً جائز ہے۔ ڈاکٹر عبد اللہ العقیل کی رائے یہ ہے کہ یہ مطلقاً جائز ہے۔ ملائشیا کی شریعہ کونسل کا فیصلہ بھی یہی ہے کہ یہ جائز ہے۔

میری رائے اس بارے میں تمام تر تحقیق اور گہرائی کے ساتھ مطالعے کے بعد یہ تھی کہ اگر کوئی کرپٹو کرنسی بلاک چین بیسڈ ہے، اس میں کوئی اضافی ناجائز چیز نہیں ہے اور اسے حکومت نے کسی مصلحت کی بنا پر ممنوع بھی قرار نہیں دیا تو اس کی لین دین جائز ہے۔ لیکن بعد میں بکس کوائین اور ون کوائین جیسے اسکیم (دھوکے) دیکھ کر میں نے اس رائے کی جانب رجوع کر لیا کہ یہ ان ممالک میں جائز ہے جہاں قانوناً اجازت ہے۔

جہاں تک بات ہے ناجائز ہونے والے نکات کی تو ان کے بارے میں میری سوچی سمجھی رائے یہ ہے کہ:

• کمپیوٹر کوئی مخلوق نہیں ہے بلکہ ایک مشین ہے۔ یہ فرضی چیزوں کو سمجھ نہیں سکتا۔ کمپیوٹر میں موجود اشیاء بجلی کی شکل میں واقعتاً موجود ہوتی ہیں اور اسی لیے ڈسک پر جگہ گھیرتی ہیں۔ نمبروں میں اس بجلی کو سمجھنے کے لیے بیان کیا جاتا ہے ورنہ حقیقتاً کمپیوٹر میں نمبر نہیں ہوتے۔

• فقہاء کرام کی صراحت کے مطابق کسی چیز کے ثمن بننے کے لیے لوگوں کا عرف کافی ہے، اس کے پیچھے حکومت کا ہونا ضروری نہیں ہے۔ لیکن اگر اسے ضروری مان لیں تب بھی کسی چیز کے لین دین کے لیے اس کا ثمن ہونا ضروری نہیں ہے۔

• قیمت کی کمی کی وجہ سے ہونے والے نقصان کو بنیاد بناتے ہوئے ناجائز قرار دینے کی کوئی نظیر ہونی چاہیے۔ اس طرح تو ہر چیز کی قیمت کم ہو سکتی ہے۔ ماضی قریب میں ہی ہم شئیرز اور روپیہ میں دیکھ چکے ہیں۔ کاروبار تو یہی ہے۔

دنیا بھر میں علماء کرام و مفتیان عظام کی ایک کثیر تعداد کی رائے اس کے ناجائز ہونے کی ہے ۔ لیکن چونکہ کمپیوٹر اور معاملات سے متعلق مسائل، دونوں میری مہارت کے میدان ہیں لہذا اپنی تحقیق کی روشنی میں مجھے اپنی اس رائے پر شرح صدر ہے کہ “جن ممالک میں قانوناً کرپٹو کرنسی کی اجازت ہے وہاں یہ شرعاً بھی جائز ہے بشرطیکہ

• یہ قابل اعتماد حد تک بلاک چین پر ہو۔

• اس میں ملٹی لیول مارکیٹنگ یا اور کوئی ناجائز چیز شامل نہ ہو۔”

یاد رہے کہ یہ بات صرف اسپاٹ ٹریڈنگ کی حد تک ہے۔ فیوچر اور مارجن ٹریڈنگ قطعاً ناجائز ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ اس کی پاکستان میں کیا حیثیت ہے؟ پاکستان میں اس پر ایف آئی اے کافی کاروائی کرتی رہی ہے لیکن وہ کاروائی خود غیر قانونی تھی۔ بہرحال اس کی وجہ سے میں بھی اس کے ناجائز ہونے کا ہی کہتا تھا۔ وقار ذکاء کیس میں سندھ ہائی کورٹ نے ایف آئی اے کو روک دیا اور ابھی جو کے پی کے میں صورت حال ہے اس سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ قانونی ہو جائے گی۔ موجودہ قانونی اسٹیٹس کسی اچھے وکیل سے معلوم کر کے اس کے مطابق عمل کر سکتے ہیں۔

یاد رہے کہ یہ میری رائے ہے، اس کے جائز ہونے کا قطعی فتوی اور انویسٹمنٹ کا مشورہ نہیں ہے۔ یہ بہت احتیاط اور صبر سے کیا جانے والا کاروبار ہے اور ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ نقصان بھی اس میں بہت زیادہ ہوتا ہے۔ اگر وکیل اسے درست کہے تب بھی کام اپنے اوپر والے حصے (دماغ) سے فیصلہ کر کے کیجیے گا۔

مفتی اویس پراچہ

اپنا تبصرہ بھیجیں