احکام ومسائل

سورۃ البقرۃ
• ختم نبوت کاعقیدہ ایمان کاحصہ ہے۔{وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ} [البقرة: 4]
• صحابۂ کرام سچے پکے مؤمن تھے۔ صحابۂ کرام کے ایمان کا دفاع کرنااللہ تعالی سے ثابت ہے۔{وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا كَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُوا أَنُؤْمِنُ كَمَا آمَنَ السُّفَهَاءُ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَاءُ وَلَكِنْ لَا يَعْلَمُونَ} [البقرة: 13]
• تجارت اور مالی معاملہ درست ہونے کے لیے کوئی مخصوص الفاظ ادا کرناضروری نہیں بلکہ اصل یہ ہے کہ مبیع اور ثمن میں کوئی خرابی نہ پائی جائےنیزتجارت میں نفع کماناجائز ہے۔{أُولَئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُا الضَّلَالَةَ بِالْهُدَى فَمَا رَبِحَتْ تِجَارَتُهُمْ} [البقرة: 16]
• تمام اقسام کے پھل اور فروٹ حلال ہیں۔{فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَكُمْ} [البقرة: 22]
• قطعی اور یقینی باتوں میں کافروں کو چیلنج کرنا،مناظرے کی دعوت دینا جا ئز ہے۔{وَإِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَّلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِهِ وَادْعُوا شُهَدَاءَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ} [البقرة: 23]
• مچھر، مکھی اور حشرات الارض کا کھانا حرام ہے۔{ إِنَّ اللَّهَ لَا يَسْتَحْيِي أَنْ يَضْرِبَ مَثَلًا مَا بَعُوضَةً فَمَا فَوْقَهَا} [البقرة: 26]
• دین کی ضروری باتیں سیکھنے سکھانے میں شرم جائز نہیں۔(ایضا)
• عبادات کے علاوہ دنیا کی عام استعمال کی چیزوں میں اصل یہی ہے کہ وہ حلال ہیں جب تک اس کے حرام ہونے کی کوئی دلیل نہ پائی جائے۔هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُمْ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا[البقرة: 29]
• ہر اہم معاملے میں مشورہ کرنا چاہیے۔حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق سے پہلے اللہ رب العزت نےفرشتوں سے کچھ سوالات کیے یہ مشورہ تو نہیں تھا کیونکہ اللہ تعالی کو اس کی ضرورت نہیں لیکن اس میں مشورے کی تعلیم ضرور دی گئی ہے۔{وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً} [البقرة: 30]
• دینی اور دنیاوی معاملات میں خلیفہ،جانشین مقرر کرنا جائز ہے۔(ایضا)
• خون بہانا اور ناحق قتل و قتال حرام ہے۔{قَالُوا أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ} [البقرة: 30]
• کسی کو عہدہ ومنصب دیتے وقت اس بات کو مد نظر رکھنا چاہیے کہ وہ اس عہدہ و منصب سے منسلک امور سے واقف ہو۔{وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلَائِكَةِ فَقَالَ أَنْبِئُونِي بِأَسْمَاءِ هَؤُلَاءِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ}
• علم افضل ہے عبادت سے۔(ایضا)
• انسان تمام مخلوقات سے افضل ہے۔{وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَى وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَافِرِينَ} [البقرة: 34]
• سجدۂ تعظیمی (بطورِ احترام کسی کو سجدہ کرنا) گزشتہ شریعتوں میں جائز تھاجبکہ اس شریعت میں متواتر احادیث کی رو سے حرام ہے۔جبکہ سجدۂ عبادت (نفع نقصان کا مالک سمجھ کرکسی کوسجدہ کرنا) ہمیشہ سے ہر شریعت میں شرک قرار دیا گیا ہے۔(ایضا)
• اللہ کے واضح حکم کے مقابلے میں اپنی عقل چلانا جائز نہیں ۔(ایضا)
• تکبرحرام ہے ۔ حسد حرام ہے۔اہل علم کی شان میں گستاخی کرنا حرام ہے۔(ایضا)
• عصبیت اور نسل پرستی حرام ہے۔(ایضا)
• نان نفقہ شوہر کے ذمہ ہےاوررہائش میں بیوی شوہر کے تابع ہے،جس مکان میں شوہر رہے اسی میں بیوی کو رہنا چاہیے۔{وَقُلْنَا يَاآدَمُ اسْكُنْ أَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ} [البقرة: 35]
• ہر جگہ چلنا پھرنا،ہرچیز کھانا انسان کا فطری حق ہےسوائے ممنوعات کے۔{وَكُلَا مِنْهَا رَغَدًا حَيْثُ شِئْتُمَا}
• شیطان انبیا ء کرام علیہم السّلام کے دلوں میں وسوسے ڈال سکتا ہے ،یہ الگ بات ہےکہ پھر بھی انبیاء کرام سے گناہوں کا صدور ممکن نہیں۔ { فَأَزَلَّهُمَا الشَّيْطَانُ عَنْهَا} [البقرة: 36]
• انبیا ء کرام علیہم السّلام سے اجتہادی غلطی ہو سکتی ہے۔(ایضا)
• اللہ تعالی کے حکم کوماناجائے لیکن اپنی غفلت ونادانی یا کسی کے بہکاوے میں آکر لیکن اس سے انحراف ہوجائے تو وہ کفر نہیں بلکہ معصیت یعنی گناہ ہے۔ندامت کے ساتھ معافی مانگنے سے ایسا گناہ معاف ہوجاتا ہے۔(آیت 35۔37)
• بنی اسرائیل کو 8 احکام دیے گئے اور 4 چیزوں سے منع فرمایا گیا ۔یہ اوامرونواہی امت محمدیہ کے لیے بھی برقرار ہیں:احکام یہ ہیں:1۔اللہ کی نعمتوں کاشکر اداکریں۔2۔اللہ سے کیے گئے عہد کوپورا کریں۔3۔اللہ کے علاوہ کسی سے نہ ڈریں،اسی کومشکل کشاحاجت روا مانیں۔4۔اللہ تعالی کی تمام کتابوں پر ایمان لائیں۔5۔نماز قائم کریں۔6۔زکوۃ اداکیاکریں۔ 7۔باجماعت نماز اداکریں۔8۔ مصیبت آئے توصبر اور نماز کے ذریعے اللہ کی مدد حاصل کریں۔چار نواہی یہ ہیں:1۔حق کے منکر نہ بنیں۔2۔دنیاکے عوض اللہ کے احکام کونہ بیچیں۔3۔حق اور باطل میں خلط ملط نہ کریں ۔4۔حق کو نہ چھپائیں۔
• جو شخص کسی گناہ یا ثواب کا سبب بنتاہے تو کرنے والے کا گناہ یا ثواب اس کے حق میں لکھا جاتا ہے۔{وَلَا تَكُونُوا أَوَّلَ كَافِرٍ بِهِ} [البقرة: 41]
• اللہ کے کسی حکم کو رشوت لے کر بدلنا حرام ہے۔{وَلَا تَشْتَرُوا بِآيَاتِي ثَمَنًا قَلِيلًا} [البقرة: 41]
• نماز ،زکوۃ،رکوع فرض ہیں۔{ وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَ} [البقرة: 43]
• جبکہ جماعت سے نماز پڑھنا واجب (سنت مؤکدہ قریب بہ واجب )ہے۔(ایضا)
• ہر مشکل میں نماز پڑھ کر اللہ سے دعا کرنی چاہیے۔{وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ} [البقرة: 45]
• قرآن وسنت میں کوئی الفاظ کہنے کو کہا گیا ہو یاکوئی حدیث منقول ہو تو اس کو اس کے مفہوم کے قریب قریب بیان کرنا تو درست ہے لیکن اس کے بالکل برخلاف بیان کرناتحریف ، بددیانتی اور بہت بڑا گناہ ہے۔{فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ فَأَنْزَلْنَا عَلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا رِجْزًا} [البقرة: 59]
• انتظامی طورپر لوگوں کو مختلف طبقات میں تقسیم کرنا جائز ہے۔{فَانْفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَيْنًا قَدْ عَلِمَ كُلُّ أُنَاسٍ مَشْرَبَهُمْ} [البقرة: 60]
• سود ،قتل،دہشت گردی یہ سب چیزیں حرام اور فساد فی الارض ہے۔(آیت نمبر60،61)
• معجزات اور کرامات برحق ہیں۔ { فَقُلْنَا اضْرِبْ بِعَصَاكَ الْحَجَرَ فَانْفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَيْنًا} [البقرة: 60]
• ایسا حیلہ جس سے حکم الہٰی کا مقصدمعطل ہوتا ہو، جائز نہیں۔{وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ الَّذِينَ اعْتَدَوْا مِنْكُمْ فِي السَّبْتِ فَقُلْنَا لَهُمْ كُونُوا قِرَدَةً خَاسِئِينَ} [البقرة: 65]
• دینی احکام کا مذاق اڑانا حماقت اور جہالت ہے۔{قَالُوا أَتَتَّخِذُنَا هُزُوًا قَالَ أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِينَ}
• انبیاء کرام علیہم السّلام سے غیر معقول قسم کے سوالات کرنا مکروہ عمل ہے۔(ایضا)
• بلا وجہ کسی چیز کی تحقیق میں پڑنا مناسب نہیں ۔(ایضا)
• اللہ کےحکم پر جلد سے جلد عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔(ایضا)
• ان شاء اللہ کہنے سے کام آسان ہو جاتے ہیں۔{وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللَّهُ لَمُهْتَدُونَ} [البقرة: 70]
• انسان کو خود اپنے اوپر سختی نہیں کرنی چاہیے بلکہ ہمیشہ اللہ کے حکم کا پابند ہونا چاہیے۔(آیت 69۔71)
• شریعت اور احکام الہیہ میں تحریف کرنا حرام ہے۔{وَقَدْ كَانَ فَرِيقٌ مِنْهُمْ يَسْمَعُونَ كَلَامَ اللَّهِ ثُمَّ يُحَرِّفُونَهُ مِنْ بَعْدِ مَا عَقَلُوهُ وَهُمْ يَعْلَمُونَ} [البقرة: 75]
• رشوت کی آمدنی حرام ہے۔{فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ يَكْتُبُونَ الْكِتَابَ بِأَيْدِيهِمْ ثُمَّ يَقُولُونَ هَذَا مِنْ عِنْدِ اللَّهِ لِيَشْتَرُوا بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا فَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا يَكْسِبُونَ} [البقرة: 79]
• کتابت (composing)کی اجرت لینا جائز ہے جبکہ لکھی ہوئی چیز غیر شرعی نہ ہولیکن لکھوائی گئی چیز حرام ہو تو اس کی آمدنی بھی حرام ہے۔(ایضا)
• والدین ،قریبی رشتہ دار،محتاج اور یتیم کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہیے۔{وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا} [البقرة: 83]
• اپنے ہم مذہب کو قتل کرنا یا ناحق جلا وطن کرنا جائز نہیں ،جبکہ اپنا ہم مذہب اگر کسی مشکل یا قید میں ہو تو فدیہ دے کر اس کو آزاد کروانا چاہیے۔{لَا تَسْفِكُونَ دِمَاءَكُمْ وَلَا تُخْرِجُونَ أَنْفُسَكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ} [البقرة: 84]
• ایمان جاننے کا نہیں بلکہ ماننے کا نام ہے۔{فَلَمَّا جَاءَهُمْ مَا عَرَفُوا كَفَرُوا بِهِ} [البقرة: 89]
• کسی دنیاوی مصیبت کی وجہ سے موت کی تمنّا جائز نہیں۔ہاں! شہادت کی تمنا جائز ہے۔{فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ} [البقرة: 94]
• فرشتوں کی شان میں گستاخی کرنا جائز نہیں۔{مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِلَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَرُسُلِهِ وَجِبْرِيلَ وَمِيكَالَ فَإِنَّ اللَّهَ عَدُوٌّ لِلْكَافِرِينَ} [البقرة: 98]
• جبرائیل  دوسرے فرشتوں سے افضل ہیں۔(ایضا)
• جادو میں تاثیر ہوتی ہے۔{وَيَتَعَلَّمُونَ مَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنْفَعُهُمْ وَلَقَدْ عَلِمُوا لَمَنِ اشْتَرَاهُ مَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ}
• جادو ٹونا اپنی تاثیر میں اللہ تعالی کے حکم کی محتاج ہے۔{وَمَا هُمْ بِضَارِّينَ بِهِ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ}
• جادو کی ایک تاثیر یہ ہے کہ اُس کی وجہ سے میاں بیوی میں جدائی یا کوئی رکاوٹ ہو جاتی ہے۔{فَيَتَعَلَّمُونَ مِنْهُمَا مَا يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ} [البقرة: 102]
• جادو کا غلط استعمال حرام ہے۔{وَلَبِئْسَ مَا شَرَوْا بِهِ أَنْفُسَهُمْ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ} [البقرة: 102]
• انبیاء علیہم السّلام کی طرف جادو کی نسبت کرنا کفر ہے۔{ وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَانُ وَلَكِنَّ الشَّيَاطِينَ كَفَرُوا يُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ} [البقرة: 102]
• وہ جادو اور تعویذ شرک ہےجس میں جنّات، شیاطین یا غیر اللہ سے مدد طلب کی جائےیاستاروں وغیرہ کو مؤثر حقیقی سمجھا جائے۔(ایضا)
• جادو کا غلط استعمال کرنے والوں کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔(ایضا)
• انبیاء علیہم السّلام کی شان میں معمولی سے معمولی بے ادبی کے الفاظ بھی نہیں کہنے چاہییں۔{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقُولُوا رَاعِنَا وَقُولُوا انْظُرْنَا وَاسْمَعُوا وَلِلْكَافِرِينَ عَذَابٌ أَلِيمٌ} [البقرة: 104]
• کفار کے ساتھ ارادی طور پر مشابہت جائز نہیں۔(ایضا)
• کسی جائز فعل سے عوام کو نا جائز کاموں کی گنجائش معلوم ہو تو یہ جائز فعل نا جائز ہو جاتا ہے۔(ایضا)
• قرآن وشریعت میں نسخ کا تصوربھی ہے اوراس کاوجود بھی ہے۔{مَا نَنْسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنْسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِنْهَا أَوْ مِثْلِهَا} [البقرة: 106]
• مسجدیں اللہ کے لیے وقف ہوتی ہیں۔{ مَسَاجِدَ اللَّهِ} [البقرة: 114]
• مسجد میں جانے سے لوگوں کو روکنا، چاہے اس کی کوئی بھی صورت ہو ، بہت بڑا گناہ ہے۔مثلاً: مسجد کے سامنے زورسے گانے بجانا، مسجدیں گرانا،مساجد پر حملہ کرنا، مسجد میں کوئی ایسا کام کرنا جس سے لوگ مسجد میں کم آنے لگیں،وغیرہ وغیرہ۔(ایضا)
• عذر کی صورت میں قبلہ رخ ہوناضروری نہیں ۔{ وَلِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ}[البقرة: 115]جیسے:کسی ایسے علاقے میں سفر کرنا جہاں قبلہ معلوم نہ ہو، جنگ بہت نازک مرحلے میں داخل ہو اور جماعت سے نماز پڑھنا اور قبلہ رخ ہونا بہت نقصان دہ ہو، وہ سخت بیمار شخص جس کو قبلہ رخ ہونے سے تکلیف ہو، ان تینوں صورتوں میں فرض نماز کسی بھی رخ کرکے پڑھنا جائز ہے ، جبکہ نفلی نمازوں میں گنجائش اور زیادہ ہےاور وہ یہ کہ شہر سے باہر سواری کی حالت میں ہوتو بغیر عذر کے بھی قبلہ رخ ہونے کا حکم معاف ہو جاتا ہے۔
• کافروں کی اطاعت کرنا ان کو عہدے دینا ان کو اپنا راز دار بنا نا اور ان کی مشابہت جائز نہیں۔{وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُمْ بَعْدَ الَّذِي جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَكَ مِنَ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ} [البقرة: 120]
• امتحان لینا جائز ہے ۔{وَإِذِ ابْتَلَى إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا } [البقرة: 124]
• امتحان کے بعد انعام دینا بھی جائز ہے۔(ایضا)
• عہدہ اور منصب کے لیے لیاقت اور صلاحیت معیار ہے۔(ایضا)
• انبیاء کرام علیہم السّلام معصوم ہوتے ہیں۔{قَالَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي قَالَ لَا يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ} [البقرة: 124]
• بیت اللہ یعنی مکہ معظمہ میں کسی انسان یا جانور کو قتل کرنا جائز نہیں۔{وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَذَا بَلَدًا آمِنًا} [البقرة: 126]
• طواف کے سات چکر وں کے بعد دو رکعت واجب طواف پڑھنا ،مقام ابراہیم کے پاس سنت ہے۔{وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى} [البقرة: 125]
• مسجد وں اور اور عبادت کی جگہوں کو پاک رکھنا چاہیے۔{وَعَهِدْنَا إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ} [البقرة: 125]
• بیت اللہ کے اندر چاہے فرض نماز ہو یا نفل نماز ہو، علی الاطلاق جائز ہے۔(ایضا)
• حرم شریف میں نفلی نماز سے افضل طواف کرنا ہے۔(ایضا)
• رہبر اور رہنما کا کام ہے کہ وہ اپنے ملک میں امن وامان قائم کریں اور لوگوں کے روز گار کا انتظام کریں۔{وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَذَا بَلَدًا آمِنًا وَارْزُقْ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرَاتِ} [البقرة: 126]
• عبادت خانہ کی تعمیر میں بذات خود شریک ہونا چاہیے۔{وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْرَاهِيمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَإِسْمَاعِيلُ}
• حج کےارکان اورمناسک اہتمام سےسیکھنے اور سکھانے چاہییں۔{وَأَرِنَا مَنَاسِكَنَا} [البقرة: 128]
• قرآن کی تلاوت، قرآن کے احکام و مسائل کی تعلیم اور دلوں کا تزکیہ کے تمام کام انبیاء اور نیک لوگوں کا منصب ہے اور دین کا حصہ ہے۔بعض محقق علماء نے حکمت سے مراد حکومت اورسیاستِ شرعیہ کو لیا ہے۔{رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ} [البقرة: 129]
• موت سے پہلے وصیت کرنی چاہیے{وَوَصَّى بِهَا إِبْرَاهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ يَابَنِيَّ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَى لَكُمُ الدِّينَ فَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ} [البقرة: 132]
• خاتمہ بالخیر ہی اصل کامیابی ہے۔(ایضا)
• اپنی اولاد کی اچھی تربیت کرنا اور اچھی تربیت کی تاکید کرنا بہت اہم عمل ہے۔(ایضا)
• دادا بھی باپ کے حکم ہےجبکہ پوتے بیٹوں کے حکم میں ہے۔{قَالُوا نَعْبُدُ إِلَهَكَ وَإِلَهَ آبَائِكَ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ} [البقرة: 133]
• آباء واجداد کے اعمال کی جزاوسزا اولاد پر نہیں۔{لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُمْ مَا كَسَبْتُمْ وَلَا تُسْأَلُونَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ} [البقرة: 134]
• آباء و اجداد کا عمل اولاد کی نجات کا ضامن نہیں۔(ایضا)
• رسول اللہ ﷺ کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالی نے لی ہے،اللہ تعالی تمام گستاخوں کے لیے کافی ہے۔ فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللَّهُ[البقرة: 137]

اپنا تبصرہ بھیجیں