گھر پر مانگنے آنے والوں کو خیرات دینا

السلام علیکم ورحمتہ اللہ
یہ جو گھر گھر مانگنے آتی ہیں بظاہر وہ دیکھنے میں ٹھیک لگتی ہیں کیا ان کو خیرات دینی چاہیے؟
الجواب باسم ملہم الصواب
گھر پر مانگنےآنے والا اگر پیشہ ور بھکاری نہیں ہےتو یہ گمان کرکے اس خیرات(نفلی صدقات) دی جاسکتی ہے کہ ہوسکتاہے مجبوری کی وجہ سے مانگ رہا ہو۔ البتہ اگر وہ پیشہ ور بھکاری ہے تو اس کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے اور مدد نہیں کرنی چاہیے ورنہ وہ اپنے اس کام پر مزید جری ہوگا،تاہم رویہ مناسب رکھا جائے۔البتہ اگر کسی کو معلوم ہے کہ یہ پیشہ ور بھکاری ہے اس کے باوجود وہ اسے خیرات دے دے تو دینے والا ہی گناہ گار ہوگا۔
——————————————-
حوالہ جات:
1.لِلْفُقَرَاءِ الَّذِينَ أُحْصِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ لَا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْبًا فِي الْأَرْضِ يَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ أَغْنِيَاءَ مِنَ التَّعَفُّفِ تَعْرِفُهُم بِسِيمَاهُمْ لَا يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا ۗ وَمَا تُنفِقُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ.
(سورۃ البقرہ : 273)
ترجمہ: (یہ صدقات) ان محتاجوں کے لیے ہیں جو اللہ کے راستے میں روکے گئے ہیں، زمین میں سفر نہیں کرسکتے، ناواقف انھیں سوال سے بچنے کی وجہ سے مال دار سمجھتا ہے، تو انھیں ان کی علامت سے پہچان لے گا، وہ لوگوں سے لپٹ کر نہیں مانگتے، اور تم خیر میں سے جو خرچ کرو گے سو یقیناً اللہ اسے خوب جاننے والا ہے۔
——————————————–
1.عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ سَأَلَ النَّاسَ أَمْوَالَهُمْ تَكَثُّرًا فَإِنَّمَا يَسْأَلُ جَمْرًا فَلْيَسْتَقِلَّ أَوْ لِيَسْتَكْثِرْ.
(صحیح مسلم: 1041)
ترجمہ :حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص مال بڑھانے کے لئے لوگوں سے ان کا مال مانگتا ہے وہ آگ کے انگارے مانگتا ہے، کم (اکھٹے) کر لے یا زیادہ کر لے۔‘‘
2.عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ مُخَارِقٍ الْهِلَالِيِّ قَالَ تَحَمَّلْتُ حَمَالَةً فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَسْأَلُهُ فِيهَا فَقَالَ أَقِمْ حَتَّى تَأْتِيَنَا الصَّدَقَةُ فَنَأْمُرَ لَكَ بِهَا قَالَ ثُمَّ قَالَ يَا قَبِيصَةُ إِنَّ الْمَسْأَلَةَ لَا تَحِلُّ إِلَّا لِأَحَدِ ثَلَاثَةٍ رَجُلٍ تَحَمَّلَ حَمَالَةً فَحَلَّتْ لَهُ الْمَسْأَلَةُ حَتَّى يُصِيبَهَا ثُمَّ يُمْسِكُ وَرَجُلٌ أَصَابَتْهُ جَائِحَةٌ اجْتَاحَتْ مَالَهُ فَحَلَّتْ لَهُ الْمَسْأَلَةُ حَتَّى يُصِيبَ قِوَامًا مِنْ عَيْشٍ أَوْ قَالَ سِدَادًا مِنْ عَيْشٍ وَرَجُلٌ أَصَابَتْهُ فَاقَةٌ حَتَّى يَقُومَ ثَلَاثَةٌ مِنْ ذَوِي الْحِجَا مِنْ قَوْمِهِ لَقَدْ أَصَابَتْ فُلَانًا فَاقَةٌ فَحَلَّتْ لَهُ الْمَسْأَلَةُ حَتَّى يُصِيبَ قِوَامًا مِنْ عَيْشٍ أَوْ قَالَ سِدَادًا مِنْ عَيْشٍ فَمَا سِوَاهُنَّ مِنْ الْمَسْأَلَةِ يَا قَبِيصَةُ سُحْتًا يَأْكُلُهَا صَاحِبُهَا سُحْتًا.
(صحیح مسلم: 1044)
ترجمہ: حضرت قبیصہ بن مخارق ہلالی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے (لوگوں کے معاملات میں اصلاح کے لیے) ادائیگی کی ایک ذمہ داری قبول کی اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضرہوا کہ آپﷺ سے اس کے لیے کچھ مانگوں تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ٹھہرو حتیٰ کہ ہمارے پاس صدقہ آ جائے تو ہم وہ تمھیں دے دینے کا حکم دیں۔‘‘ پھرآپ ﷺ نے فرمایا: ’’اے قبیصہ! تین قسم کے افراد میں سے کسی ایک کے سوا اور کسی کے لیے سوال کرنا جائز نہیں:
ایک وہ آدمی جس نے کسی بڑی ادائیگی کی ذمہ داری قبول کر لی، اس کے لیے اس وقت تک سوال کرنا حلال ہو جاتا ہے حتیٰ کہ اس کو حاصل کر لے، اس کے بعد (سوال سے) رک جائے،
دوسرا وہ آدمی جس پر کوئی آفت آ پڑی ہو جس نے اس کا مال تباہ کردیا ہو، اس کے لئے سوال کرنا حلال ہو جاتا ہے یہاں تک کہ وہ زندگی کی گزران درست کر لے۔ یا فرمایا: زندگی کی بقا کا سامان کرلے۔اور
تیسرا وہ آدمی جو فاقے کا شکار ہو گیا، یہاں تک کہ اس کی قوم کے تین عقلمند افراد کھڑے ہو جائیں (اور کہہ دیں) کہ فلاں آدمی فاقہ زدہ ہو گیا ہے تو اس کے لئے بھی مانگنا حلال ہو گیا یہاں تک کہ وہ درست گزران حاصل کرلے۔ یا فرمایا: زندگی باقی رکھنے جتنا حاصل کر لے ۔
اے قبیصہ! ان صورتوں کے سوا سوال کرنا حرام ہے اور سوال کرنے والا حرام کھاتا ہے۔‘‘
3.عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَحِلُّ الْمَسْأَلَةُ لِغَنِيٍّ وَلَا لِذِي مِرَّةٍ سَوِيٍّ.
(ترمذی شریف: 652)
ترجمہ : نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ‘کسی مالدار کے لیے مانگناجائزنہیں اور نہ کسی طاقتوراور صحیح سالم شخص کے لیے مانگنا جائزہے.
———————————————
1.ولا یجوز دفع الزکاۃ الی من یملک نصابا: ائ مال کان دنانیر او دراھم۔۔۔۔۔فاضلا عن حاجتہ فی جمیع السنۃ۔
(الفتاوی ھندیہ: جلد 1، صفحہ 189)

2.ولا یحل ان یسال شیئا من القوت من لہ قوت یومہ بالفعل او بالقوۃ کالصحیح المکتسب ویاثم معطیہ ان علم بحالہ لا عانتہ علی المحرم۔
(الدر مختار: جلد 2 صفحہ 354)
——————————————
1.بہت سے بھیک مانگنے والے خودصاحب نصاب ہوتے ہیں اس لیے جب تک یہ اطمینان نہ ہوکہ یہ واقعی محتاج ہے اس کو زکوۃ اور صدقہ فطر دینا صحیح نہیں۔
(آپ کےمسائل اور ان کاحل: جلد 3، صفحہ 402)

2.پیشہ ور گداگروں کو خیرات نہیں دینا چاہیے ان کے علاوہ اگر غالب خیال ہو کہ یہ واقعی محتاج ہے تو دے دیا جائے ورنہ نہیں
(آپ کےمسائل اور ان کا حل : جلد 8، صفحہ 258)
———————————————
واللہ اعلم بالصواب
25اگست2022
27 محرم1444

اپنا تبصرہ بھیجیں