گھٹنے کی تکلیف کی وجہ سے چار زانو بیٹھ کر نماز پڑھنا

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
ایک خاتون ہیں ان کے گھٹنے میں چوٹ آئی جس کی وجہ سے التحیات کی طرح دو زانو ہو کے نہیں بیٹھ سکتیں، وہ چار زانو بیٹھ کر ہی نماز پڑھتی ہیں
جس کی کیفیت یہ ہے کہ نماز میں قیام بھی نہیں کرتیں شاید ان سے کھڑے ہو کے پھر رکوع کرنے اور بیٹھنے میں مسئلہ ہے لہذا زمین پہ چار زانو بیٹھ کے ہی ساری نماز پڑھ لیتی ہیں ۔
اور رکوع اشارے سے اور سجدہ بھی اسی طرح چہار زانوبیٹھ کر زمین پہ سر ٹکا کے کرتی ہیں۔
کیا قاعدہ یہی ہے کہ جو سجدہ کر سکتا ہے؟ اس سے قیام ساقط نہیں ہوتا ۔
کیا یہ صحیح کر رہی ہیں ؟اس کا حل کیا ہے؟
الجواب باسم ملھم الصواب

واضح رہے کہ نماز میں قیام اس وقت ساقط ہوجاتا ہے جب کوئی شخص بیماری مثلاً: معذوری کی وجہ سے قیام پر قادر ہی نہ ہو، یا قیام پر قادر ہے لیکن سجدہ نہیں کرسکتا یا کھڑا تو ہوسکتا ہے ،لیکن بار بار رکوع سجود کے لیے اٹھتے ، بیٹھتے شدید ناقابل برداشت تکلیف پیش آتی ہے ، تو ایسی صورت میں اس شخص کے لیے اجازت ہے کہ وہ قیام ترک کرکے زمین پر بیٹھ کر نماز پڑھ لے ، اگر دو زانو نہ بیٹھ سکے تو چار زانو بھی ٹھیک ہے ۔اگر سجدہ کرنے کی طاقت ہے تو سجدہ زمین پر ہی پیشانی ٹکا کر ادا کرنا ہوگا ۔
لہذا صورت مسئولہ میں بھی اگر خاتون کو گھٹنے میں ناقابل برداشت تکلیف ہے تو ان کے لیے بیٹھ کر نماز پڑھنا درست ہے ،(بیٹھنے کی ہیئت اپنی سہولت کے اعتبار سے خواہ کچھ بھی ہو) سجدہ پر قدرت کی وجہ سے اگر وہ سجدہ زمین پر کرتی ہیں تو پھر اسی طرح زمین پر سجدہ کرنا لازم ہے ، تاہم اگر تکلیف قابل برداشت ہے یا معمولی ہے تو اس صورت میں قیام ساقط نہیں ہوسکتا اوربیٹھ کر نماز پڑھنا جائز نہ ہوگا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1۔”(من تعذر عليه القيام) أي كله (لمرض) حقيقي وحده أن يلحقه بالقيام ضررقال في البحر: أراد بالتعذر التعذر الحقيقي، بحيث لو قام سقط، حكمي بأن (خاف زيادته أو بطء برئه بقيامه أو دوران رأسه أو وجد لقيامه ألما شديدا۔۔۔صلى قاعدًا۔“(فتاوی شامی: باب صلوة المريض:2/ 95، ط: سعيد)

2۔”و إن لم يكن كذلك أي بما ذكر و لكن يلحقه نوع مشقة لايجوزترك القيام (فتاوی تاتار خانیہ :باب صلوة المريض:2/ 667، ط:رشيديۃ)

3۔’’( و منها: القيام ) و هو فرض في صلاة الفرض والوتر، هكذا في الجوهرة النيرة و السراج الوهاج‘‘۔ (فتاوی ہندیہ: الباب الرابع في صفة الصلاة، الفصل الاول في فرائض الصلاة، 1/ 69، ط: رشيدية)
4۔”(وإن تعذرا) ليس تعذرهما شرطاً بل تعذر السجود كاف (لا القيام أومأ) بالهمز (قاعداً) وهو أفضل من الإيماء قائماً؛ لقربه من الأرض، (ويجعل سجوده أخفض من ركوعه) لزوماً (ولا يرفع إلى وجهه شيئاً يسجد عليه) فإنه يكره تحريماً (فإن فعل) بالبناء للمجهول ذكره العيني (وهو يخفض برأسه لسجوده أكثر من ركوعه صح) على أنه إيماء لا سجود إلا أن يجد قوة الأرض (وإلا) يخفض (لا) يصح؛ لعدم الإيماء.(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار:2/ 97)

و اللہ سبحانہ اعلم
قمری تاریخ:19/ربیع الاول /۱۴۴۴ھ
شمسی تاریخ:21/اکتوبر/2022ء

اپنا تبصرہ بھیجیں