انسان کا اپنے اعضاء عطیہ کرنے کا حکم

سوال : انسان کا اپنے اعضاء عطیہ کرنے کا کیا حکم ہے ؟

الجواب حامدًا ومصلّياً

واضح رہے کہ شرعاً انسان کے اعضاء انسان کی اپنی ملکیت میں نہیں بلکہ اللہ کی طرف سے اس کو عاریۃً استعمال کیلئے عطا ہوئے ہیں چنانچہ اسی وجہ سے پاک وہند کے جمہور علماء کے نزدیک انسان کا اپنے اعضاء کا عطیہ دینا یااعضاء کی پیوند کاری کرانا جائز نہیں۔

البتہ عرب اور ہندوستان کے بعض علماءنے اس کی چندشرائط کے ساتھ اجازت دی ہےجن کی تفصیل ذیل میں آرہی ہے لیکن انسانی اعضاء کی خرید وفروخت کسی طور پر کسی کے نزدیک بھی جائز نہیں اسلئے اس سے بہرحال بچنا لازم ہے

ان شرائط کی تفصیل درج ذیل ہے:

۱ معتمد اور ماہر ڈاکٹرز بتائیں کہ کہ عضو کی منتقلی کے علاوہ کوئی دوسراعلاج ممکن نہیں۔

۲ جس انسان کو عضو دیا جائے اس کے بارے میں تشفی ہو کہ اس عضو کی منتقلی سے شفاء ہوجائے گی۔

۳  کسی انسان کا ایسا عضو نہ نکالا جائے جس پر حیات موقوف ہو جیسے دل۔

۴  کسی ایسے عضو کی منتقلی حرام ہے جس کے جدا کرنے سے انسان کسی اساسی وظیفہ سے محروم ہوجائے جیسے دونوں آنکھیں۔

۵   کسی مسلمان کا کوئی عضو کسی کافر کو لگاکر اللہ کی نعمت کا ناشکرانہ استعمال نہ کیا جائے۔

۶  جس کا عضو نکالا جارہا ہے اس کی طرف سے اجازت ہو ،اگر میت نے وصیت کی ہو تو اس کے ورثاء کی طرف سے اجازت ہو۔

۷  زندہ جسم سے وہ عضو نکالا جائے جس کے متعلق معتمد ڈاکٹروں نے طے کردیا ہو کہ اس کا جسم سے نکا ل دینا مضر نہیں۔

۸  عضو کی منتقلی کے بعد جسم میں کوئی ایسی تبدیلی نہ ہو جو مثلہ کے مشابہ ہو ۔

۹ لاوارث میت کے اعضاءکا انتقال جائز نہیں جب تک کہ گورنمنٹ کے مجاز افسر سے اس کے اعضاء کی منتقلی کی اجازت نہ لے لی جائے۔

۱۰ حتّی الامکان کوشش کی جائے کہ کسی مسلمان میں مسلمان کا عضو ہی منتقل کیا جائے ۔

ان شرائط کی رعایت کے ساتھ ان علماء کے نزدیک اعضاءکی پیوند کاری اور عطیہ کرنے کی گنجائش ہے۔

لہٰذا جس شخص کو اس مسئلے میں ابتلاء ہو اور وہ کسی مجبور اور ضرورت مند کو جواز کے قائلین کے قول پر عمل کرتے ہوئے عطیہ دیدے تومذکورہ شرائط کے ساتھ اس کی گنجائش ہےالبتہ اس کو چاہیے کہ احتیاطاً وہ اس پر توبہ واستغفار کرتا رہےاور کچھ صدقہ وخیرات بھی کرے۔

قال الله تعالى- [الإسراء : 70] وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا

الفتاوى الهندية – (5 / 338) مضطر لم يجد ميتة وخاف الهلاك فقال له رجل اقطع يدي وكلها أو قال اقطع مني قطعة وكلها لا يسعه أن يفعل ذلك ولا يصح أمره به كما لا يسع للمضطر أن يقطع قطعة من نفسه فيأكل كذا في فتاوى قاضي خان

شرح السير الكبير – (4 / 269) وقد بينا أن المسلم لا يحل له أن يقي روحه بروح من هو مثله في الحرمة ، كما لو أكره بوعيد القتل على أن يقتل مسلما . ولأنهم يتعجلون في هذا قتل المسلمين والمسلمات ولا رخصة في ذلك لمن يخاف الهلاك على نفسه . ألا ترى أنه لو ابتلي بمخمصة لم يحل له أن يتناول أحدا من أطفال المسلمين لدفع الهلاك عن نفسه .

الأشباه والنظائر – (1 / 109)

تنبيه : يتحمل الضرر الخاص لأجل دفع الضرر العام وهذا مقيد لقولهم : الضرر يزال بمثله ما فرع عن ….ومنها : جواز شق بطن الميتة لإخراج الولد إذا كانت ترجى حياته وقد أمر به أبو حنيفة رحمه الله فعاش الولد كما في الملتقط

تحفة الفقهاء – (3 / 345)

ولو أن حاملا ماتت وفي بطنها ولد يضطرب فإن كان غالب الظن أنه ولد حي وهو في مدة يعيش غالبا فإنه يشق بطنها لأن فيه إحياء الآدمي بترك تعظيم الآدمي وترك التعظيم أهون من مباشرة سبب الموت 

واللہ تعالی اعلم بالصواب محمدعثمان غفرلہ

اپنا تبصرہ بھیجیں