انسانی اعضا کی پیوند کاری کے معاملے میں فقہ اکیڈمی دھلی کے اہلِ علم کی آرا اور مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کا نقطۂ نظر

ایدھی صاحب کی طرف سے آنکھیں عطیہ کرنے کے بعد انسانی اعضا کی پیوند کاری کے مسئلے پر بحث جاری ہے اور مختلف پوسٹیں کالم وغیرہ اس سلسلے میں لکھے گئے ہیں۔ ہندوستان کے نام ور فقیہ مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی رحمۃ اللہ علیہ کی قائم کردہ فقہ اکیڈمی میں اس مسئلے پر 1989ء میں دو سیمینار منعقد کیے گئے جن میں اہل علم کی کثیر تعداد نے اس کے جواز عدمِ جواز اور مشروط جواز پر اپنے علمی مقالات پیش کیے جو اکیڈمی کی طرف سے شائع کردہ “جدید فقہی مباحث” کی پہلی جلد میں شائع کیے گئے ان مقالات کے علاوہ اکیڈمی نے اس موضوع پر گروہی مباحثوں (Group Discussions) کا انعقاد بھی کیا جس کی تفصیل اسی کتاب میں موجود ہے۔ ان مباحث کو دیکھتے ہوئے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے پہل مسئلے پر جب اہلِ علم نے گفت گو کی تو کئی ایک نے اس کو سرے سے ناجائز قرار دیا لیکن بحث ومباحثہ کے نتیجے میں علما کی آرا میں ایک واضح تنوع اور ارتقا نظر آتا ہے۔ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی سے اس طرح کے مسائل پر عام طور پر توقع ہوتی ہے کہ وہ مقاصدِ شریعت ،حالات وزمانہ اور ضرورت وحاجت کو سامنے رکھ کر کوئی راے پیش کریں گے۔ انھوں نے اس سیمینار میں جو علمی مقالہ پیش کیا اس کے سات مرکزی نکات حسبِ ذیل ہیں:
1- اعضائے  انسانی کی پیوند کاری کا جو طبی طریقہ ایجاد ہوا ہے اس میں توہینِ انسانیت نہیں ہے۔
2- اس لیے یہ جائز ہے بہ شرط  کہ اس سے مقصود کسی مریض کی جان بچانی ہو یا جسم کی کسی منفعت (جیسے بینائی وغیرہ) کو لوٹانا مقصود ہو۔
3- طبیبِ حاذق نے بتایا ہو کہ اس کی وجہ سے صحت کا غالب گمان ہے۔
4-  غیر مسلم کے اعضا بھی مسلمان کے جسم میں لگائے جا سکتے ہیں۔
5- مردہ شخص کے جسم سے عضو لیا جارہا ہو تو ضروری ہے کہ اس نے زندگی میں اجازت دی ہو کیوں کہ وہ جسم کا مالک ہے اور ورثہ کا بھی راضی ہونا ضروری ہے۔
6-  زندہ شخص کا عضو لیا جائے تو اس کی اجازت ہونی چاہیے نیز اس کو شدید ضرور لاحق نہ ہو۔
7- اعضا کی بینکگ بھی درست ہے، شوافع اور حنابلہ کے ہاں اعضا کی خرید وفروخت دونوں کی گنجائش ہے اور احناف کے نزدیک بہ درجۂ مجبوری خرید کر سکتے ہیں فروخت نہیں کر سکتے۔
(1: 216  217)
عام طور پر ابتلا حاجات وضرورت اور عمومِ بلوی مسائل کی تبدیلی پر اثر انداز ہوتے ہیں اور فقہِ اسلامی کی یہی مرونت ویسر کا پہلو ہے جس کی وجہ سے اس میں ابدی طورپر رہ نمائی کی صلاحیت موجود ہے۔ اگرچہ اس موضوع پر علما کی آرا مختلف ہیں لیکن الضرورات تبيح المحذورات (ضرورتیں  ممنوع کاموں کو جائز کر دیتی ہیں) کے اصول کے تحت موجود ہ دور میں انسان جن نت نئی بیماریوں کے مسائل سے دوچار ہو رہا ہے جو ماضی میں نہ تھیں تو ایسے مسائل میں سختی کے پہلو کو زمانہ خود یسر اور آسانی کے طرف لے جانے میں اپنے ابدی جبر کے اصول کو آزما کر رہے گا۔

واللہ اعلم

 
 
 

اپنا تبصرہ بھیجیں