تحریر و تخریج: ڈاکٹر مبشر حسین رحمانی
جعلی یا فیک ویڈیوز ،آڈیوزاور تصاویر ہمیں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر ہر جگہ گردش کرتی نظر آتی ہیں۔ پھران جعلی ویڈیوز ،آڈیوز اور تصاویرکی مدد سے مختلف شعبہ ہائے زندگی کے لوگوں کےخلاف منفی پروپیگنڈا پھیلایا جاتا ہے۔ اسی جعلی مواد کو ففتھ جنریشن وار فئیر کے ہتھیار کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے اورملک دشمن عناصر اس سے ایک خاص بیانیہ تشکیل دیتےہیں تاکہ عوام کو ریاست اور فوج کے خلاف اکسایا جاسکے۔نیزکچھ اسلام دشمن عناصر ان جعلی ویڈیو، آڈیو، اور تصاویر کو غلط استعمال کرتے ہوئے اب علمائے کرام کی شان میں بھی گستاخی کررہےہیں اور کبھی کوئی جعلی ویڈیو ، آڈیو، یا تصویر بنا کر لیک کردی جاتی ہے تاکہ عوام الناس کو گمراہ کیا جاسکے اور علمائے کرام سے متنفر کیا جائے۔
ہمیں دو چیزوں کو الگ الگ پیرائے میں دیکھنا چاہیے۔ پہلی قسم تو اُن ویڈیوز، آڈیوز، یا تصاویر کی ہوتی ہے جو کہ اپنی ذات میں اصلی ہوں، کسی حقیقی واقعے پر مبنی ہو اور کسی کی کوئی چھپی ہوئی حرکت ہو جس کو وہ کسی کےسامنے ظاہر نہ کرنا چاہتا ہو،اور اس قسم کی حرکت کو کسی نے محفوظ کرلیا ہو اور پھراس ڈیجیٹل مواد Digital Content کو عوام کے سامنے ظاہر کردیا جائے۔اس طرح کی آڈیو، ویڈیوز اور تصاویرLeaked Digital Content (Audio, Video, or Pictures) لیک کیٹیگری کے زمرے میں آتی ہیں۔ دوسری قسم ان آڈیوز، ویڈیوز اور تصاویر کی ہے جو کہ حقائق یا حقیقی واقعے پر مبنی نہ ہوں بلکہ جعلی ویڈیوز، تصاویر یا آڈیوز ہوں یا آسان الفاظ میں اپنے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کیلئے ڈیجیٹل مواد میں ہیرپھیر کی گئی ہو تو اس طرح کے ڈیجیٹل مواد کو فیک ڈیجیٹل مواد Fake Digital Content یا جعلی میڈیا مواد کہا جائے گا۔ اس طرح کے ڈیجیٹل فیک مواد میں دو قباحتیں ایک جگہ جمع ہوگئی ہوتی ہیں یعنی ایک تو وہ حقائق کے منافی ہوتی ہیں اور دوسرا یہ کہ وہ جعلی بھی ہوتی ہیں اور ہمارا موضوع یہی دوسری قسم کا ڈیجیٹل فیک مواد ہے۔
روایتی کمپیوٹر سائنس کے طریقہ کاراور سافٹ وئیر جن کی مدد سے ان ویڈیوز، آڈیوز اور تصاویر میں جعلسازی کی جاتی ہے ان میں ویڈیو ایڈٹنگ سافٹ وئیرز مثلاً Adobe Premier Pro ،آڈیو ایڈٹنگ سافٹ وئیرز مثلاً Adobe Audition ، اور امیج پروسسنگ سافٹ وئیرز مثلاًAdobe Photoshop, CorelDraw, Graphics Suite وغیرہ شامل ہیں ۔ کمپیوٹر سائنس کے ذیلی شعبے مصنوعی ذہانت Artificial Intelligence کے اندر ہونے والی ترقیوں نے ان جعلی ویڈیوز، آڈیوز اور تصاویر کو بنانے کے عمل کو نہ صرف یہ کہ مزید خودکار Automate کردیا ہے بلکہ ان سے تیار ہونے والی ویڈیوز، آڈیوز اور تصاویر بالکل اصلی لگتی ہیں اور اسی وجہ سے ان کا معاشرے میں غلط استعمال بھی بڑھا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ خودکار اور بالکل اصلی لگتی جعلی ویڈیوز، آڈیو یا تصاویر بنتی کیسے ہیں اورکسی ڈیجیٹل میڈیا موادکے متعلق کیسے یہ پتہ چلایا جائے گا کہ وہ جعلی ہے یا اصلی اور عوام ان سے کیسے بچ سکتے ہیں؟ عمومی طورپر یہ جعلی یا فیک ویڈیوز ، آڈیوز اور تصاویر ڈیپ فیک ٹیکنالوجی Deep Fake Technology کی مدد سے تیار کی جاتی ہیں اور Generative Adversarial Networks (GANs) جنریٹیو ایڈورسیریل نیٹورک کا بطورِ خاص اس میں استعمال کیا جاتا ہے۔
کسی ٹیکنالوجی کو مثبت بھی استعمال کیا جاسکتا ہے اور منفی بھی اور یہی کچھ حال ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کا بھی ہے۔ ابھی حال ہی میں کرونا وائرس کی وبا نے عالمی سطح پر جو تباہ کاریاں مچائی ہیں وہ ہر کسی پر عیاں ہیں۔ پوری دنیا اس وائرس سے متاثر ہوئی، کئی ملک مکمل لاک ڈاؤن کی زد میں آئے، کڑوروں لوگ اس سے بیمار ہوئے اور لاکھوں لوگوں کی اس سے ہلاکت ہوئی۔نیز عالمی معیشت اس وائرس کی تباہ کاریوں سے شدید متاثر ہوئی۔ میڈیکل سائنس کے ماہرین کے سامنے اس وائرس کی خودکار صحیح اور جلد تشخیص بہت ضروری تھی اور اس کیلئے کمپیوٹر سائنسدانوں اور محققین نے بھی اس میں اپنا کردار ادا کیا۔ اس کرونا وائرس کی خودکار اور صحیح تشخیص کیلئے ایکس رے امیج، ایم آر آئی، سی ٹی اسکین اور دیگر بیماریوں کے امیج وافر مقدار میں موجود نہ ہونے کی وجہ سے اس بیماری اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونےوالی دیگر بیماریوں کی تشخیص بہت مشکل تھی۔ اس مسئلہ کو حل کرنے کیلئے کمپیوٹر سائنس دانوں نے میڈیکل امیج پراسسنگ کے اندر مصنوعی ذہانت کے طریقوں کو استعمال کرتے ہوئے بہت ساری بیماریوں کا بروقت اور صحیح تشخیص کرنے کا طریقہ کار ڈھونڈ نکالا اور اس کیلئے ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کو استعمال کیا ۔یعنی مصنوعی طور پرحقیقت سے ملتی جلتی تصاویر کمپیوٹر کی مدد سے پہلے بنائیں اور پھرانہی تصاویر سے کمپیوٹر کو ٹرئینگ دی تاکہ کمپیوٹر نئے آنے والےمریض کے امیج میں بیماری کی صحیح خودکار تشخیص کرسکے اور یہی طریقہ کار آڈیو اور ویڈیو پر بھی لاگو ہوتا ہے۔
کسی جعلی یا لیک آڈیو، ویڈیو، یا تصویر کے بارے میں حتمی ٹیکنیکل رائے قائم کرنا اور اس رائے کو عدالتوں میں گواہی کیلئے استعمال کرنے کیلئے تو باقاعدہ سائنسی مہارت درکار ہے اوریہ کمپیوٹر سائنس کا ایک مختص شعبہ ہے جس کو ہم Media Forensics, Deepfake Forensics, Video or Audio Forgery Detection کہتے ہیں۔ اس کو ایک مثال سے سمجھتے ہیں۔ خدانخواستہ روڈ پر ایک ایکسیڈینٹ ہوا اور مختلف گاڑیوں نے اور سی سی ٹی وی نے اس کو ریکارڈ کرلیا۔ اب یہ ویڈیو ٹریبیونل میں پیش کی جائے گی اور لیگل پروسیڈنگز Legal Proceedings کا حصہ بنے گی اور اس کی بنیاد پر تفتیش مزید آگے بڑھے گی۔ اس طرح کی ویڈیوز کی سالمیت Integrity کو برقرار رکھنے کیلئے مختلف طریقے استعمال کئے جاتے ہیں جن میں Hashing, Signatures, Noise Level, Compression Artefacts, Blockchain وغیرہ شامل ہیں اور یہ کام صرف اس شعبے کے ماہرین ہی کرسکتے ہیں۔
جہاں تک عوام کی بات ہے تو عوام کیلئے ڈیپ فیک کو معلوم کرنا تھوڑا مشکل ہے اور اس کیلئے تعلیم وتربیت کی ضرورت ہے اور اس تربیت سے عوام کم از کم منفی پروپیگینڈا سے بچ سکتے ہیں ۔گو کہ اس وقت انٹرنیٹ پر ایسی ایپلیکشنز اور ویب سائٹ مثلاً deepware.ai, اور Sereley.com موجود ہیں جو کہ آپ کو کسی آڈیو، یا ویڈیو کے متعلق بتا سکتی ہیں کہ وہ ڈیپ فیک سے تیار کردہ تو نہیں مگر ان پر مکمل اعتماد نہیں کیا جاسکتا اور اس کی بنیادی وجہ ڈیٹا سیٹ Dataset کی کمی ہے اور کمپیوٹر سائنس کے شعبے میں آئے دن ہونے والی ترقی بھی اس طرح کی فیک ویڈیوزکو پہچاننے میں رکاوٹ ہے۔گو کہ تھوڑی سے باریک بینی سے اگر تجزیہ کیا جائے تو ویڈیو ، آڈیو، یا تصاویر کے بارے میں ایک ہلکا سا تصور قائم کیا جاسکتا ہے کہ وہ فیک ہے کہ نہیں مگر ماہرین کی مدد کے بغیرکوئی حتمی رائے قائم کرنا مشکل ہے۔ مثلاً آڈیو کی کوالٹی کیسی ہے، لائٹنگ کیسی ہے، آواز کا شخصیت کے ساتھ مماثلت، نیز پلکوں کا جھپکنا، ہونٹوں کی ہلنا وغیرہ ۔
ہم بحیثیتِ عوام یہ کرسکتے ہیں کہ اگر ہمارے سامنے کوئی ایسی آڈیو، ویڈیو، یا تصویر آئے جو کہ کسی متعلقہ شخص کے عمومی حُلیے، مزاج، عادات، دعوت، اور اخلاق سے مختلف ہو تو اس پر یقین نہ کریں۔مثلاً آپ ایک شخص زید (فرضی نام) کے متعلق جانتے ہیں اور وہ عرصے سے عوام کے اندر میڈیا پر آکر ہمدردی، ایثار اور عوامی فلاح کی باتیں کررہا ہے اور آپ کی یاداشت میں اس کا ایک پروفائل بن گیا ہے اور یکایک آپ کو اس سے متعلق میڈیا پر ایک ویڈیو نظر آتی ہے جس میں وہ اپنی باتوں سےعوام دشمن ثابت کیا گیا ہے اور وہ ویڈیو اُس شخص کے پروفائل سے مختلف ہے تو اس طرح کی ویڈیوز کو آپ نظر انداز کرسکتے ہیں۔نیز ایک شخص بکر (فرضی نام) کے متعلق آپ جانتے ہیں کہ وہ ہمیشہ ایک مخصوص سیاسی نظریات کی بات کررہا ہوتا ہے اور اب آپ کو ایک آڈیو ملتی ہے جس میں وہ اس سے مخالف باتیں کرتا نظر آتا ہے تو اس طرح کی آڈیوکو بھی نظر انداز کیا جاسکتا ہے۔ عوامی سطح پر اس طرح کے مواد کو نظر انداز کرنے کیلئے اس وجہ سے کہا جاتا ہے کیونکہ عوام ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کے ماہر تو ہیں نہیں اور اس طرح کی ڈیپ فیک مواد پر یقین کرنے سے معاشرے میں انتشار ، بدگمانی اور افراتفری پھیلتی ہے۔ مغربی ترقی یافتہ ممالک میں بھی ڈیپ فیک ویڈیوز ہوتی ہیں مگر وہاں پر اس طرح کے فیک مواد بنانے اور پھیلانے پر سخت گرفت اور قانونی پکڑ بھی ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں حکومتوں کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ ہر قسم کےفیک مواد کو پکڑنے اور روک تھام کرنے کیلئے قانون سازی کرے ، نیز ایسےادارے اور ماہرین تیار کرے جن کی رائے فیک ویڈیو سے متعلق حتمی تصور کی جائے اور جو اس ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کی مدد سے پھیلنی والی جعلی ویڈیوز، آڈیوز اور تصاویر کی نشاندہی اور تدارک بھی کرسکیں۔