کیا نبی کریم ﷺ کی طرف سے قربانی کرسکتے ہیں

حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے جو قربانی کرتے ہیں اس کی دلیل درکار ہیں حدیث رسول یا آثار صحابہ سے؟

فتویٰ نمبر:196

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب حامداًومصلیاً
اگرکسی پر قربانی واجب ہو تو پہلے واجب قربانی اداکرےاس کے بعد اگر گنجائش ہو تو نبی اکرم ﷺکی طرف سے قربانی کرنا نہ صرف یہ کہ جائز ہے بلکہ باعثِ اجروثواب اور حضور ﷺ کے ساتھ محبت کی علامت ہے۔ ،سنن أبى داود – (3/ 50):
عن حنش قال رأيت عليا يضحى بكبشين فقلت ما هذا فقال إن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- أوصانى أن أضحى عنه فأنا أضحى عنه.
ترجمہ: حضرت حنش رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دو دنبے قربانی کرتے دیکھا تو میں نے ان سے پوچھا: یہ کیا ہے؟ (یعنی قربانی میں ایک دنبہ کفایت کرتا ہے آپ دو کیوں کرتے ہیں) تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے وصیت فرمائی ہے کہ میں آپ کی طرف سے قربانی کیا کروں، تو میں آپ کی طرف سے (بھی) قربانی کرتا ہوں۔
فی اعلاء السنن – (17/272):
ولما ثبت انہ ﷺ اوصی علیا رضی اللہ تعالیٰ عنہ بان یضحی عنہ ،وذلک دلیل حبہ ﷺ التضحیۃعنہ ،فینبغی لمن وجد سعۃان یضحی عن حبیبہ ونبیہ ﷺ کل عام ولو بشاۃ او بسبع بقرۃ
حاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 244):
وختم ابن السراج عنه – صلى الله عليه وسلم – أكثر من عشرة آلاف ختمة؛ وضحى عنه مثل ذلك. اهـ…. قلت: وقول علمائنا له أن يجعل ثواب عمله لغيره يدخل فيه النبي – صلى الله عليه وسلم – فإنه أحق بذلك حيث أنقذنا من الضلالة، ففي ذلك نوع شكر وإسداء جميل له، والكامل قابل لزيادة الكمال. وما استدل به بعض المانعين من أنه تحصيل الحاصل لأن جميع أعمال أمته في ميزانه. يجاب عنه بأنه لا مانع من ذلك، فإن الله – تعالى – أخبرنا بأنه صلى عليه ثم أمرنا بالصلاة عليه، بأن نقول: اللهم صل على محمد،
واللہ تعالی اعلم بالصواب

 

 

اپنا تبصرہ بھیجیں