مدنی دور

“گیارہواں سبق”
“مدنی دور”

“ہجرت کا ساتواں سال”

“ہجرت کے ساتویں سال” غزوہء خیبر پیش آیا- اس غزوہ سے واپسی پر “لیلہ العریس”پیش آیا جس میں پورے لشکر کی “نماز فجر”قضاء”ہوئ-اسی غزوہ میں ایک “یہودی عورت” نے”آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم”کی دعوت کی-جب “آپ صلی اللہ علیہ وسلم”نے کھانا تناول کرنے کے لئے نوالہ منہ میں رکھا ہی تھا کہ گوشت نے خود ہی بتا دیا کہ”آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” اسکو نہ کھائیں اس میں زہر ہے-” آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے فوراً نوالہ تھوک دیا لیکن چونکہ نوالہ منہ میں رکھ چکے تھے اور زہر اتنا سریع الاثر تھا کہ اس زہر کا اثر” مرض الموت” میں بھی باقی تھا-
اسی سال”حضرت صفیہ بنت حی” حضرت ام حبیبہ بنت ابو سفیان”اور حضرت میمونہ بنت حارث”رضی اللّٰہ عنھن” امہات المؤمنات”بن کے ” کاشانہء نبوت” میں داخل ہوئیں-
” ہجرت کا آٹھواں سال”
اس سال”حضرت خالد بن ولید رضی اللّٰہ عنہ”اور حضرت عمرو بن العاص رضی اللّٰہ عنہ”مشرف بہ اسلام” ہوئے-“آپ صلی اللہ علیہ وسلم” نے اسی سال “عمرہ القضاء” ادا کیا- “غزوہء موتہ” اور”فتح مکہ”کا واقعہ بھی اسی سال پیش آیا-
“ابو سفیان” کو اور “حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ” کے والد “ابو قحافہ”کو بھی ایمان کی دولت نصیب ہوئی- “اس طرح”حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ” وہ واحد صحابی ہیں جنکی تین نسلیں”صحابیت” کے درجے پر پہنچیں-( سبحان اللّٰہ) (ماشاءاللہ)
“حضرت ابو قحافہ”رضی اللّٰہ عنہ “حضرت ابو بکر” رضی اللّٰہ عنہ” آپ رضی اللّٰہ عنہ کی اہلیہ”ام رومان٫رضی اللّٰہ عنہا” بیٹیاں “حضرت اسماء بنت ابوبکر” اور “حضرت عائشہ بنت ابوبکر” رضی اللّٰہ عنھما”اور”آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کے نواسے “حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللّٰہ عنہ”(این خانہ ہمہ آفتاب است)
اسی سال” میرے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کے تیسرے صاحبزادے “حضرت ابراہیم” پیدا ہوئے-
“ہجرت کا نواں سال”

اس سال”غزوہء تبوک پیش آیا-جس میں”اللّٰہ تعالٰی” نے” منافقین” کی اصلیت کھول کر رکھ دی اور اس”غزوہء” سے واپسی پر “آپ صلی اللہ علیہ وسلم” نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے منافقین کی “مسجد ضرار”جو دراصل ان کی سازشوں کا”دار الندوہ” تھا اس کو منہدم کروایا- رئیس المنافقین” عبداللہ بن ابی”کی موت واقع ہوئی-اور وہ جہنم واصل ہوا-
اسی سال”70″ سے زائد وفود کی آمد کی وجہ سے اس سال کو”عام الوفود” بھی کہا جاتا ہے-
“سورہ التوبہ”بھی اسی سال نازل ہوئی-
“واقعہء ایلا”(آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم”نے اپنی ازواجِ مطہرات سے کسی بات پر ناراض ہو کر ” عارضی طور پر علیحدگی ” اختیار کر لی تھی)ہوا-
“میرے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم”کو گھوڑے سے گرنے کی وجہ سے”دائیں پہلو اور پنڈلی پر خراش آئ ( یہ واقعہ میرے علم میں نہیں ہے-)
“اسی سال حج فرض ہوا٫ تو”آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے” حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ” کو امیر حج بنا کر”300″ افراد کی معیت میں “حج” کے لئے روانہ کیا-

“ہجرت کا دسواں سال”

اس سال”مسیلمہ کذاب” اور”اسود عنسی” نے ( العیاذ باللہ)”دعویٰء نبوت” کیا-
اسی سال”رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ” “پہلا اور آخری حج”کیا-
اسی لئے اس”حج” کو” حجتہ الوداع” کہا جاتا ہے- اس” حج میں اس وقت موجود”تمام امہات المؤمنات” جنکی تعداد”9″ تھی موجود تھیں-کل “ا40 ہزار سے زیادہ” صحابہء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین”بھی ہمراہ تھے-
“آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے اس”حج” کے موقع پر”خطبہ دیا” جس کو “خطبہء حجتہ الوداع” کہا جاتا ہے-اس خطبہ کو “آئین اسلام”اور” چارٹر آف اسلام” بھی کہا جاتا ہے-اس میں”میرے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے اسلام کے تمام” اصول وضوابط” سمجھا دئیے-
جاہلیت کی رسموں کو ختم کیا٫شرک کی باتوں کو ملیامیٹ کر کے” شرک کی جڑ ہی اکھاڑ پھینکی- اور”دین اسلام” کو مکمل کردیا-
اسی سال” سورہ النصر” نازل ہوئ جو نزول کے اعتبار سے”آخری سورہ ہے-سورہ سن کر”یار غار ثور” حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ”رونے لگے-دراصل ان کی” ذکاوت حس” نے بتا دیا تھا کہ”آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کے دنیا سے پردہ فرمانے کا وقت آ گیا ہے_
“آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے وہاں موجود پوری امت سے گواہی لی کہ
” کیا میں نے اللہ کا ہر حکم تم لوگوں تک پہنچا دیا؟سب نے بیک زبان اقرار کیا ( تین بار)
اس پر “آپ صلی اللہ علیہ وسلم”نے تین بار آسمان کی طرف”شہادت کی انگلی” اٹھا کر فرمایا “یا اللہ! تو گواہ رہنا”یا اللہ تو گواہ رہنا”یا اللہ تو گواہ رہنا-اور پھر”12 ربیع الاول٫سن 11 ہجری کو پیر کے دن”پوری کائنات” کو سوگوار کر کے” اپنے محبوب حقیقی سے جاملے- انا للّٰہ وانا الیہ راجعون-
اللھمہ صل علی سیدنا و مولانا محمد وعلی آلہ واصحابہ٫وازواجہ” و بارک وسلم-

“مدنی دور کی خصوصیات”
1-“مدنی دور اسلام کا سب سے تابناک اور جدوجہد سے بھرپور دور ہے-“10″سال کے قلیل عرصے میں”نبیء آخر الزماں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم”اور صحابہء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین” کی انتھک کوششوں”محنت و اخلاص اور جان و مال کی قربانیوں کے سبب اسلام کو غلبہ ملا- اسلام کی حقانیت”مکی دور” میں ثابت ہو چکی تھی لیکن اسلام کو غلبے کے لئیے” جہاد کی ضرورت تھی اسی لئے” مدنی دور” میں جہاد فرض ہوا-
“27”غزوات”میں” نبیء ملاحم صلی اللہ علیہ وسلم” بنفس نفیس شریک ہوئے اور”60″کے لگ بھگ “سرایا”میں صحابہء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی قیادت میں فوجیں روانہ کیں-ان سب مہمات میں “صحابہء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین” نے”مثالی اطاعت٫ بےپناہ شجاعت اور”صبر و استقامت” کا مظاہرہ کیا٫- تقوی کی صفت نمایاں طور پر پہلے سے موجود تھی٫اس لئے فتوحات مقدر بنیں اور “اسلام”پورے”جزیرہ العرب”میں غالب آگیا-

2-اس دور میں جہاں مجاہدین جنگوں اور غزوات میں مصروف کار تھے وہیں کچھ”صحابہء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین”دینی تعلیم و تعلّم اور”پیارے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کے ہر قول و فعل کو حرف بہ حرف پہنچانے میں ہمہ تن مصروف تھے-تعلیم و تعلّم” کے دلدادہ یہ” صحابہء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین”عشق و محبت میں ڈوبے ہوئے یہ “عاشق رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم”جنھیں نا کھانے پینے کا ہوش تھا نا گھر بار کے جھمیلے تھے٫ مسجد نبوی صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کے پاس ہی ایک چبوترہ٫ جسے”صفہ” کہا جاتا تھا وہ ان کا مدرسہ بھی تھا٫رہائش گاہ بھی اور تربیت گاہ بھی- ان کے طعام کے لئے اگر کبھی دودھ کا ایک پیالہ بھی آجاتا تھا تو وہ” میرے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کی برکت سے سب کو پیٹ بھر کر نصیب ہو جاتا تھا٫ورنہ اکثرو بیشتر یہ”طالبان حق” بھوکے ہی رہتےتھے-
3-“حلال و حرام٫احکام و قوانین اورحدود پر مشتمل آیات اکثر و بیشتر اسی عرصے میں نازل ہوئیں- گویا”ریاست مدینہ” کو”آئین و دستور” اسی دور میں ملا-
4-“اسلام” کو ایک مرکز میسر آگیا٫جس کے بعد”اسلام” کی” تبلیغ و اشاعت” بہت آسان ہو گئ-

(ختم شد٫ گیارھواں سبق)-
حوالہ: سیرت النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم”کورس-
مرسلہ: خولہ بنت سلیمان-
“الہی گر قبول افتد زہے عزو شرف آمین-
28-11-21 بروز ہفتہ بمطابق 21 ربیع الثانی 1443 ھ-

اپنا تبصرہ بھیجیں