میاں بیوی میں طلاق کے عدد میں اختلاف

سوال:میاں بیوی میں لڑائی ہوئی اور شوہر نے اپنے کمرے میں 2 بار طلاق دی ۔ پھر لڑتے ہوئے نیچے دوسرے کمرے میں چلےگئے جہاں ساس تھیں ان کے سامنے دوبارہ 2طلاق دیں۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ شوہر کہتے ہیں کہ انھوں نے اپنے کمرے میں طلاق نہیں دی اور بیوی کہتی ہے کہ وہاں بھی دی ہے۔ شوہر کے حساب سے 2 طلاق ہوئی ہیں اور بیوی کے حساب سے 4 طلاق۔ اب کس کی بات پر یقین کیا جائے۔دونوں میں سے آگر کوئی غلط بیانی کررہا ہے تو اس کا گناہ ہوگا۔

تنقیح: شوہر نے کمرے میں کیا الفاظ کہےتھے۔
کیا بیوی کے پاس کوئی گواہ موجود ہے کہ شوہر نے کمرے میں بھی طلاق دی تھی؟

جواب تنقیح : میں تمہیں طلاق دیتا ہوں۔
نہیں کوئی گواہ نہیں

تنقیح الثانی: نیچے کمرے میں کیا الفاظ تھے۔
جواب تنقیح: میں تمہیں طلاق دیتا ہوں۔

الجواب باسم ملھم الصواب

واضح رہے کہ مفتی غیب نہیں جانتا بلکہ وہ سوال کے مطابق جواب دیتا ہے اور سوال کے صحیح یا غلط ہونے کی ذمہ داری سائل پر ہوتی ہے مفتی پر نہیں نیز غلط بیانی کرکے فتوی لینے سے کوئی حلال حرام نہیں اور حرام حلال نہیں ہوتا بلکہ حلال بدستور حلال اور حرام بدستور حرام ہی رہتا ہے۔
اس تمہید کے بعد آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ صورت مسوولہ میں خاتون اس بات کا دعوی کررہیں ہیں کہ شوہر نے انہیں چارمرتبہ طلاق کے جملے کہے ہیں جبکہ شوہر کا کہنا ہے انہوں نے صرف دومرتبہ کہے ہیں۔
اس صورتحال میں مفتی محض یہی کہہ سکتا ہے کہ اگر شوہر سچا ہے تو محض دو ہی طلاقیں واقع ہوئی ہیں اور اگر شوہر بیوی کے ساتھ رہنا چاہے تو رجوع کرکے بیوی کے ساتھ رہ سکتا ہے اور بیوی کا غلط بیانی کرکے شوہر سےبھاگنا درست نہیں ہوگا۔تاہم اگر بیوی سچی ہے تو ایسی صورت میں تینوں طلاقیں واقع ہوچکیں ہیں اور عورت شوہر کے لیے حرام ہوچکی ہے اور بغیر شرعی حلالہ کے اب میاں بیوی اکٹھے ساتھ نہیں رہ سکتے۔ اس صورت میں شوہر کا غلط بیانی کرکے بیوی کوزبردستی اپنے پاس روکنا جائز نہیں بلکہ سخت گناہ ہے۔
واضح رہے کہ ہم نے دونوں صورتوں کا جواب لکھ دیا ہے شوہر اگر جھوٹ بول رہا ہوگا تو وہ اپنے جھوٹ کا ذمہ دار ہوگا اور بیوی اگر جھوٹ بول رہی ہوگی تو اپنے جھوٹ کے لیے خود ذمہ دار ہوگی دونوں کے لازم ہے کہ اپنی قبر وآخرت کو سامنے رکھتے ہوئے درست فیصلہ کریں۔
 —————————————–
حوالہ جات :
1.وإن اختلفا في وجود الشرط فالقول له إلا إذا برهنت.
(الفتاوى الهندية: ج 1 ، ص 490)

2.وكذلك إن سمعت أنه طلقها ثلاثا وجحد الزوج ذلك وحلف فردها عليه القاضي لم يسعها المقام معه وينبغي لها أن تفتدي بمالها أو تهرب منه
(الفتاوى الهندية: ج 5، ص 361)

3.وقال الأوزجندي: ترفع الأمر للقاضي، فإن حلف ولا بينة فالإثم عليه. وقال ابن عابدین: (قوله: فالإثم عليه) أي وحده، وينبغي تقييده بما إذا لم تقدر على الافتداء، أو الهرب (فتاوی شامیہ: ج 5، ص 55)

4.والمرأۃ کالقاضي إذاسمعتہ أو أخبرہا عدل لا یحل لہا تمکینہ … فإن حلف ولا بینۃ لہا فالإثم علیہ.
(فتاوی شامیہ: ج 3، ص 251)
—————————————–
1.جب عورت نے 3 مرتبہ طلاق دینا خود اپنے کان سے سنا ہے توپھر اس کے لیے زیدکو اپنے اوپر قدرت دینا جائز نہیں جو جائز صورت بھی عورت کے قبضہ میں زید سے بچنے کی ہو اختیار کی جاوے۔
(فتاوی محمودیہ: ج 14، ص 298)

2.اگرشوہراس (مطلقہ)کواپنے پاس رکھے گاتوہمیشہ نزاع اور شک وشبہ رہے گا، اور شوہرگناہ گارہوگا،اگرخدانخواستہ شوہرنہ طلاق کااقرار کرے ،نہ اب طلاق دے ،اور طلاق کے شرعی گواہ بھی موجود نہ ہوں، توایسی صورت میں عورت شوہرسے خلع کرے،کچھ دے دلاکررہائی حاصل کرے،جماعت اور برادری کے سمجھ دار دین دارحضرات شوہر کوسمجھاکر طلاق کااقراریاطلاق دینے یاخلع کرلینے پرآمادہ کریں، طلاق کااقرار یا طلاق حاصل کیے یاخلع کے بغیر عورت کسی اور جگہ نکاح نہیں کرسکتی….ایک صورت یہ ہے کہ شوہرسے جبراً واکراہاً طلاق بائن کہلوائی جائے یہ بالکل آخری درجہ ہے.
(فتاویٰ رحیمیہ: ج 8، ص283)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
واللہ اعلم بالصواب
3 مارچ 2023
11شعبان 1444

اپنا تبصرہ بھیجیں