ناک چھدوانے کا حکم

فتویٰ نمبر:2067

سوال:محترم جناب مفتیان کرام! 

ناک چھدوانے کا کیا حکم ہے؟ کیا ناک چھدوانے کا حکم قرآن و حدیث سے ثابت ہے؟

والسلام

الجواب حامداو مصليا

زیب وزینت یعنی زیورات پہننے کے لیے لڑکی کی ناک چھیدنا جائز ہے۔”کان“ پر قیاس کرتے ہوئے علماء نے ”ناک“ چھیدنے کو بھی جائز لکھا ہے۔

رسول ﷺ کے زمانے میں کان چھدنے کا رواج تھا اور آپ ﷺ سے اس پر نکیر مروی نہیں ہے۔(۱)

بعض اہل علم نے ناک چھدوانے کو خلاف اولیٰ قرار دیا ہے۔(۲)

لیکن چونکہ اس مسئلہ میں عموم بلویٰ ہے ( یعنی اکثرخواتین مبتلا ہیں) اور عموم بلویٰ کا شرعی حکم یہ ہے کہ جب کوئی امر ایسا مکروہ عمل امت کے درمیان عام ہو جائے جو منصوص اور قطعی نہ ہو بلکہ قیاسی ہو تو اس مسئلے میں تخفیف آجاتی ہے۔

تو فقہ کے اس قاعدہ کے مطابق کیونکہ کان چھدوانے کے بارے میں صریح ممانعت نہیں ہے اس لیے اس میں بلاکراہت جواز کا فتوی دیا جاسکتا ہے۔(۳)

(۱)لا بأس بثقب أذن البنت۔ و ھل تجوز الخزاء فی الأنف؟ لم أرہ‘‘(در مختار)’’ قلت: إن کان مما تزین بہ النساء کما ھو فی البلاد، فھو فیھا کثقب القرط‘‘شامی: ۵/۳۷۱(رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الحظر و الإباحۃ ،۶/۴۲۰،سعید)

ولا بأس۔۔۔۔ بثقب آذان الاطفال من البنات؛ لأنھم کانوا یفعلون ذلک فی زمان رسول اللہ ﷺ من غیر انکار(الفتاویٰ العالمگیریہ: کتاب الکراھیۃ، ۵/۳۵۷، رشیدیہ)

(۲) مولانا اشرف علی تھانوی تھانوی رحمہ اللہ سے ایک صاحب نے ناک چھدوانے کے متعلق دریافت کیا ۔ مولانا نے فرمایا : ’’ اس کے متعلق صاحب در مختار نے یہ لکھا ہے کہ لم ارہ اور شامی نے اس کو کان پر قیاس کر کے جائز لکھا ہے ۔ یعنی چونکہ کان اور ناک میں کوئی فرق بظاہر نہیں اور کان کے متعلق نص ہے لہذا اس کو بھی جائز کہا جائے گا ۔ لیکن ناک کا چھدوانا خلاف اولی ہے ۔‘‘ (مقالات حکمت: ۲۹۸)

’’سوال ؟ کان ناک چھیدنا حسب رواج ہندوستان ثابت ہے یا نہیں فرمایا کان کی صرف لو چھیدنا ثابت ہے اور ناک چھیدنا ثابت نہیں۔ بلاق تو بہت ہی برا معلوم ہوتا ہے ۔ خواجہ صاحب نے پوچھا میں اپنی لڑکی کے ناک کان چھداؤں یا نہیں فرمایا جواز تو ہے ہی اور یہ بات قابل غور ہے کہ بڑے ہوکر اس کی خود یہ حسرت نہ ہو کہ میرے ناک کان نہ چھدے یا عورتیں اسکو نہ چھیڑیں اس کی بھی رعایت کرنا ضروری ہے ۔ حضرت گنگوہیؒ نے صاحبزادی کے کان سوائے لو کے نہ چھدوائے تھے ۔ گنگوہ میں ناک چھدوانے کا رواج تو قریب قریب بالکل جاتا رہا ۔‘‘ (ملفوظات حکیم الامت: ج،۲۰) 

(۳) ’’عموم البلوی شیوع الأمر وانتشارہ علما وعملا مع الإضطرار إلیہ، ومنہ قول الحنفیۃ حدیث الآحاد لا یعمل بہ فیما تعم بہ البلوی (وقولہ:) عموم البلوی موجب للرخصۃ‘‘ (لغۃ الفقہاء /۱۱۰)

فقط

و اللہ سبحانہ اعلم

قمری تاریخ:10 ربیع الثانی 1440ھ

عیسوی تاریخ:17 دسمبر 2018ء

تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم

ہمارا فیس بک پیج دیکھیے. 

فیس بک:

https://m.facebook.com/suffah1/

ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں. 

ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک

https://twitter.com/SUFFAHPK

ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:

www.suffahpk.com

ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں:

https://www.youtube.com/channel/UCMq4IbrYcyjwOMAdIJu2g6A

اپنا تبصرہ بھیجیں