نبی اکرمﷺکا اندازِ تربیت

نحمدہ ونصلی علٰی رسولہ الکریم، امّابعد!
عن ابن عباس رضی اﷲ عنھما ان رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ والہ وسلم لقی رکبا بالروحاء فقال: من القوم؟ قالوا: المسلمون، فقالوا: من انت؟ قال: ’’رسول اﷲ‘‘ فرفعت الیہ امرأۃ صبیا، فقالت: الھذا الحج؟ قال: نعم ولک اجر
(مشکوٰۃ : ص ۲۲۱ کتاب المناسک ،بحوالہ مسلم)

حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک قافلہ حضور صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کو مقام روحاء پر ملا۔ آپ صلی اﷲ علیہ والہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ آپ کون لوگ ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم مسلمان ہیں۔ پھر قافلے والوں نے پوچھا کہ آپ کون؟ تو آپ صلی اﷲ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ ’’میں اﷲ کا رسول ہوں۔‘‘ اس پر آپwکے سامنے ایک عورت نے اپنا بچہ پیش کیا اور کہنے لگی کہ ’’کیا اس پر حج ہے؟‘‘ آپﷺنے فرمایا: جی ہاں اور تیرے لیے اس کا اجر و ثواب ہے۔‘‘
اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوئی کہ بعض احکام عادت ڈلوانے کے لیے دیے جاتے ہیں۔ حقیقت میں وہ اس کا مکلف نہیں ہوتا۔ کیونکہ یہ تربیت کا ایسا انداز ہے جو ایک آدمی کو ہر حال میں دین پر جما دیتا ہے جس سے انسان کی زندگی میں استقامت پیدا ہوجاتی ہے اور اصل چیز استقامت ہی ہے۔ اسی لیے اﷲ کے نبی ﷺ نے یہ حکم دیا ہے کہ بچے کو سات سال کی عمر میں نماز پڑھاؤ تاکہ نماز کی اس کے اندر عادت پیدا ہو اور دس سال کی عمر میں بچہ نماز نہ پڑھے تو مارنے کا حکم دیا ہے اور اسی بنا پر یہ حکم بھی دیا کہ دس سال کی عمر میں بچے کا بستر الگ کردو، اس کو ایک ساتھ نہ سلاؤ۔
اب جو والدین اﷲ کے نبیﷺ کے اس حکم کے مطابق اپنے بچوں کی تربیت کرتے ہیں ان کو نماز کا حکم دیتے ہیں۔ روزے کی عادت ڈالتے ہیں۔ الحمدﷲ! یہ دیکھا گیا کہ ایسا بچہ بڑا ہونے کے بعد کبھی نماز نہیں چھوڑتا ورنہ دیکھا گیا ہے کہ جو لوگ بڑی عمر میں نماز کی لائن پر آتے ہیں ان سے بعض اوقات نماز دوبارہ چھوٹ جاتی ہے۔ اسی طرح روزے کی اگر بچپن سے عادت نہ ڈالی جائے تو بڑی عمر میں روزہ رکھنا بہت مشکل معلوم ہوتا ہے ۔ وہ روزہ میں سستی کرتا ہے اور اﷲ کے اس فرض سے غفلت برتتا ہے۔ وجہ یہی ہوتی ہے کہ بچپن سے اس کی عادت نہیں ہوتی۔ بعض اﷲ والوں کو دیکھا کہ وہ صدقہ نکالتے وقت رقم بچے کے ہاتھ میں دیتے ہیں کہ یہ فقیر کو دے دو تاکہ بچے کو صدقات دینے کی عادت پڑے۔ اسی طرح اﷲ کے نبی صلی اﷲ علیہ والہ وسلم نے اس حدیث میں چھوٹے بچے کے لیے حج کا ماں سے کہا کہ اس پر بھی حج ہے۔ حالانکہ بچہ مکلف نہیں ہے۔ پھر ماں کو کہا کہ اس کا اجر تجھے ملے گا۔ اس لیے ہمیں بھی چاہیے کہ ہم اپنی اولادوں کی تربیت نبی صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کے بتائے ہوئے اس نسخے اور اسی اصول پر کریں۔
حج عمرہ کے موقع پر مکہ مکرمہ میں دیکھا کہ چھوٹے چھوٹے بچے والدین کے ساتھ حج کر رہے ہیں۔ طواف کر رہے ہیں، احرام باندھے ہوئے ہیں تو وہ بہت ہی اچھے اور بھلے لگے۔
آج کل والدین اولاد کے بارے میں پریشان رہتے ہیں، اس خرابی کی بڑی وجہ یہی ہوتی ہے کہ ہم اپنی اولادوں کی پہلے فکر نہیں کرتے ، جب پانی سر سے گزر جاتا ہے تو پھر اولاد کی فکر کرتے ہیں لیکن وہ زمانہ بگڑنے کا زمانہ ہوتا ہے، بننے کا زمانہ نہیں ہوتا۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بچپن سے ہی حج کی خواہش اور اس کی کوشش کرنی چاہیے ۔ لیکن یہ مسئلہ یاد رہے کہ بچپن میں کیا ہوا حج فرض حج کے قائم مقام نہیں ہوتا بلکہ بالغ ہونے کے بعد اﷲ اگر استطاعت دے تو دوبارہ حج کرنا فرض ہے۔
حج پروازوں کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ حاجی حضرات حج کے لیے جارہے ہیں ﷲ  ان کے حج کو قبول کرے۔ حج کا سفر ایسا سفر ہے جس میں بندہ اپنے رب کے گھر کی زیارت کے لیے جاتا ہے اور وہ گھر ایسا ہے، جس کے دیکھنے پر بھی اﷲ کی رحمتیں ملتی ہیں اور حجر اسود کا بوسہ گویا اﷲ تعالیٰ سے مصافحہ ہے۔ اس لیے جن حضرات پر حج فرض ہے ان کو چاہیے کہ وہ جلد از جلد حج کرنے کے اقدامات کریں،کہیں ایسا نہ ہو کہ تاخیر کرنے کی وجہ سے موت کا وقت آجائے اوروہ اس وعید میں داخل ہوجائے کہ ’’جو شخص حج فرض ہونے کے باوجود حج نہیں کرتا مجھ محمد کو اس کی کوئی پرواہ نہیں کہ وہ یہودی ہوکر مرے یا نصرانی ہوکر مرے۔ ‘‘
اﷲ ہم سب کو اس فریضے کی ادائیگی کی توفیق عطا فرمائے اور اﷲ کے نبی ﷺ کی اس وعید سے ہماری حفاظت فرمائے۔
(آمین)

 

اپنا تبصرہ بھیجیں