نفل کو فرض عبادات پر ترجیح دینا

سوال:السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاته
میرے سسرال میں فرض عبادات چھوٹی چھوٹی بات پر قضاء کردیتے ہیں لیکن تہجد نہیں چھوڑتے کسی خاص مقصد/ دعا کے لئے اس کو فرض سے زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔ شادی کے بعد ہم نے دیکھا تو سمجھایا کہ فرض کی پوچھ ہوگی، فرض ترجیح ہے نفل ترجیح نہیں۔کیا ہم یہ کہ کر گناہ گار نہیں ہوں گے ۔ یہ نہ ہو کہ وہ فرض کو ترجیح دیں یا نہ دیں نفل بھی چھوڑ نہ دیں؟

الجواب باسم ملھم الصواب
و علیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
جی آپ کا اپنے سسرال والوں کو فرضیت کی اہمیت بتانا بالکل درست ہے۔ آپ کو اس بتانے اور غلط طرز عمل کی اصلاح کرنے کا ان شاءاللہ ثواب ملے گا۔

===============
حوالہ جات :
1: مسند احمد بن حنبل:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: « وَمَنْ صَامَ تَطَوُّعًا وَعَلَيْهِ مِنْ رَمَضَانَ شَيْءٌ لَمْ يَقْضِهِ، فَإِنَّهُ لَا يُتَقَبَّلُ مِنْهُ حَتَّى يَصُومَهُ»
یعنی جو نفلی روزہ رکھے اور اس پر رمضان کا کوئی روزہ باقی ہو ، جس کی اس نے قضا نہیں کی ، تو اس کا یہ نفلی روزہ قبول نہیں ہوگا ، جب تک وہ فرض روزہ نہ رکھ لے۔
(مسند أحمد بن حنبل 269/14)

2: سنن الكبير للبهيقي:
عن علىِّ ابنِ أبى طالِبٍ -رضي اللَّه عنه- أنَّ رسولَ اللَّهِ -صلى اللَّه عليه وسلم- قال: ومَثَلُ المُصَلِّى كَمَثَلِ التّاجِرِ، لا يَخلُصُ رِبحٌ حَتَّى يَخلُصَ له رأسُ مالِه، كَذَلِكَ المُصَلِّى لا تُقبَلُ له نافِلَةٌ حَتَّى يُؤَدِّىَ الفَريضَةَ”
( السنن الكبرى للبيهقي 643/4)
نمازی کی مثال تاجر کی طرح ہے کہ اس کا نفع کھرا نہیں ہوتا ، جب تک وہ اپنا راس المال کھرا نہ کر لے ۔ یونہی نمازی کے نفل قبول نہیں ہوتے ، جب تک وہ اپنے فرائض نہ ادا کر لے۔

3: حاشیہ ابن عابدین :
فَقَالَ فِي الْمُضْمَرَاتِ: الِاشْتِغَالُ بِقَضَاءِ الْفَوَائِتِ أَوْلَى وَأَهَمُّ مِنْ النَّوَافِلِ
(الدر المختار وحاشية ابن عابدين، 2/73 ط:دار الفکر بیروت )
واللہ تعالی اعلم بالصواب
6 اکتوبر 2022ء
10 ربیع الاول 1444ھ

اپنا تبصرہ بھیجیں