شادی شدہ خواتین کا والدین کے گھر جانا

سوال : مجھے کسی نے کہا ہے کہ شادی شدہ خواتین اپنے والدین کے گھر جانے کے لئے کوئی ایک دن یا وقت مقرر کر لینا چاہئے مثلا مہینے میں ایک دن یا ہفتے میں ایک دن مخصوص کر لے اور اس میں ضرور جاۓ والدین سے ملنے کے لئے ۔میں نے کہا کہ ایسے تو نکلنا ممکن نہیں ہے تو انہوں نے کہا کہ ایسا کرنے کی شرعی طور پر اجازت ہے آپ معلوم کروا لو کہ عورت کو یہ حق حاصل ہے کہ والدین کی طرف جاۓ تو اسے شوہر سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ وہ صرف بتاۓ اس بات سے روکنا یا پاپندی لگانا عورت کے حق کے خلاف ہے تو میرا سوال ہے کہ شریعت اس بارے میں کیا کہتی ہے کہ عورت اہنے والدین کے گھر جاۓ اس حوالے سے کوئی دورانیہ دیا گیا ہے یا کوئی حق دیا گیا ہے تو اس کی وضاحت کر دیں۔۔۔

تنقیح :کیا والدین اسی شہر میں رہتے ہیں یا دوسرے شہر میں اور وہ کتنا دور ہے ؟
جواب تنقیح :
سائلہ اصولی مسئلہ پوچھنا چاہتی ہے۔

الجواب باسم ملہم الصواب

بیوی کا شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سےنکلنا ، اپنےوالدین سے ملنے جانا اور  اپنے شوہر کے بتائے ہوئے دنوں سے زیادہ رکناجائز نہیں ۔اگر  شوہر کےبتائے ہوئے دنوں سے زیادہ دن بغیر اجازت کے رکی تو  شرعی طور پر نافرمان کہلاۓ گی اور شوہر کے ذمہ اس کا خرچہ بھی نہیں ہوگا۔
شوہر کو چاہیے کہ عورت کو گاہے بگاہے والدین سے ملنے کی اجازت دیتا رہے اگر شوہر اجازت نہیں دیتا تو پھر شریعت نے عورت کو یہ حق دیا ہے کہ شوہر کی اجازت کے بغیر والدین سے ہفتہ میں ایک مرتبہ اور محرم رشتہ داروں سے سال میں  ایک مرتبہ ملاقات کے لیے جاسکتی ہے۔تاہم اگر بغیر اجازت جانے سے ازدواجی تعلقات خراب ہونے کا اندیشہ ہو تو پھر خاندان کے بزرگ افراد کو بٹھا کر کوئی درمیانی راہ نکال لی جائے۔

حوالہ جات :

1۔ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا طاعة لمخلوق في معصیة الخالق․
(مشکاة المصابیح،421/2، کتاب الإمارة والقضا، الفصل الثانی)

ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خالق کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت نہیں ہے۔۔

2۔عن ابن عباس رضي الله عنه أن امرأة من خثعم أتت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: يا رسول الله! أخبرني ما حق الزوج على الزوجة؟؛ فإني امرأة أيم فإن استطعت وإلا جلست أيماً! قال: فإن حق الزوج على زوجته إن سألها نفسها وهي على ظهر قتب أن لا تمنعه نفسها، ومن حق الزوج على الزوجة أن لا تصوم تطوعاً إلا بإذنه فإن فعلت جاعت وعطشت ولا يقبل منها، ولا تخرج من بيتها إلا بإذنه فإن فعلت لعنتها ملائكة السماء وملائكة الرحمة وملائكة العذاب حتى ترجع، قالت: لا جرم ولا أتزوج أبداً.

(الترغيب والترهيب للمنذري ، حدیث رقم 2985 )
ترجمہ :ایک عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہا یا رسول اللہ شوہر کا بیوی پر کیا حق ہے؟ میں بغیر شوہر کے ہوں کیا نکاح کروں یا ایسی ہی رہوں ۔۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شوہر کا حق اس پر یہ ہے کہ وہ جب اس سے قدرت کا مطالبہ کرے تو اسے قدرت دے اور اس کی اجازت کے بغیر نفلی روزہ نہ رکھے اگر رکھے گی قبول نہیں کیا جائے گا اور اس کی اجازت کے بغیر اپنے گھر سے نہ نکلے،اگر وہ ایسا کرے گی تو آسمان کے فرشتہ اور رحمت وعذاب کے فرشتے اس پر لعنت بھیجیں گے یہاں تک کہ وہ لوٹ آئے۔۔وہ عورت کہنے لگی میں کبھی بھی نکاح نہیں کروں گی۔۔

__________
کتب فقہ :

1۔ولیس لها أن تخرج بلا إذنه أصلًا”. (ردالمحتار علی الدرالمختار، 146/3 ط:ایچ ایم سعید)

2۔لانفقة لأحد عشر … وخارجة من بیته بغیر حق و هي الناشزة حتی تعود”.
(ردالمحتار علی الدر المختار، 575/3 ط:ایچ ایم سعید)

3۔قال الحصکفي: فلا تخرج إلا لحق لہا أو علہا أو لزیارة أبویہا کل جمعة مرة، قال ابن عابدین ینبغي أن یأذن لہا في زیارتہا في الحین بعد الحین علی قدر متعارف․ ألخ

(الدر المختار مع رد المحتار: 218/4، کتاب النکاح، ط: دار الکتاب، دیوبند)

4۔.ینبغی ان یوذن لھا فی زیارتھما الھین بعد الحین علی قدر متعارف۔۔۔ وفیہ: الصحیح المفتی بہ تخرج للوالدین فی کل جمعۃ باذنہ وبغیراذنہ ولزیارۃ المحارم فی کل سنۃ مرۃ باذنہ وبغیر اذنہ

(بحر الرائق ،195/4 وکذ ا فی الشامیۃ 146/3)

5۔والدین سے ایک شہر میں ہفتہ میں ایک بار اور شہر سے باہر ہر مہینہ میں ایک بار عورت کو ملنے کا حق ہے اگر والدین نہ آسکیں تو وہ خود جا سکتی ہے اور وہ آسکیں تو ہر ہفتہ خود وہیں آکر مل جائیں ۔ہاں سال میں دو چار دفعہ جس طرح عرف و دستور ہے خود بھی جا سکتی ہے اور محارم غیر والدین سے شہر کے اندر اور شہر سے باہر سال بھر میں ایک چار ملنے کا عورت کو حق ہے ۔

(امداد الاحکام : 886/2)

واللہ اعلم بالصواب
27مئی 2022
26 شوال 1443

اپنا تبصرہ بھیجیں