شوہر کے انتقال کے بعد ماں کا کیا حصہ ہوگا؟

سوال: محترم جناب مفتیان کرام!

السلام علیکم و رحمۃ الله و بركاته!

ایک سائلہ نے پوچھا ہے کہ ان کےشوہر کا کچھ روپیہ بینک میں جمع ہےاور ان کے خاوند نے یہ لکھا ہے کہ میرے انتقال کے بعد یہ رقم ان کی بیوی کو ملے،اب اس رقم میں ان کی والدہ کا کیا حصہ ہو گا؟

تنقیح :کیا والد یا اولاد زندہ ہیں؟

جواب تنقیح: نہیں ہیں ۔

الجواب باسم ملھم الصواب

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

واضح رہے کہ وارث کے لیے وصیت درست نہیں ہوتی۔البتہ اگر دیگر ورثاء رضامندی کا اظہار کردیں تو پھر نافذ ہوجاتی ہے۔

مذکورہ صورت میں شوہر نے بیوی کے لیے جو مال کی وصیت کی تھی وہ دیگر ورثاء کی رضامندی کے بغیر نافذنہیں ہو گی اور ترکہ شریعت کے مطابق تقسیم ہوگا۔

لہذا مرحوم نے انتقال کے وقت اپنی ملكیت میں جو كچھ منقولہ غیرمنقولہ مال و جائیداد، دكان مكان، نقدی ،سونا، چاندی غرض ہر قسم كا چھوٹا بڑا جو بھی سازوسامان چھوڑا ہے، وہ سب مرحوم كا تركہ ہے۔

1⃣ اس میں سے سب سے پہلے مرحوم كے كفن دفن كا متوسط خرچہ نكالا جائے، اگر كسی نے یہ خرچہ بطور احسان ادا كردیا ہے تو پھر تركے سے نكالنے كی ضرورت نہیں۔

2⃣ اُس كے بعد دیكھیں اگر مرحوم كے ذمے كسی كا كوئی قرض واجب الادا ہوتو اُس كو ادا كیا جائے گا۔

3⃣ اُس كے بعد دیكھیں اگر مرحوم نے كسی غیر وارث كے حق میں كوئی جائز وصیت كی ہو توبقایا تركے كے ایک تہائی حصے كی حد تک اُس پر عمل كیا جائے۔

4️⃣ صورت مسئولہ مرحوم نے جو رقم بینک میں رکھی تھی اُس کےچار حصے کیے جائیں گے میت کی بیوی کو ایک حصہ اور والدہ کو تین حصے ملے گے۔

🔵فی صد کے لحاظ سے:

🔹بیوی کو 25% ملے گا۔

🔹ماں کو 75% ملے گا۔

يہ تقسیم اس وقت درست ہو گی جب ذوی الفروض نسبی اور عصبات میں سے کوئی موجود نہ ہو۔

(ذوى الفروض كل باره ہیں چار مرد اور آٹھ عورتیں:1.شوہر 2.باپ 3.دادا 4. اخیافی بھائی۔

1.بیوی 2.بیٹی 3. پوتی4.عینی بہن 5.علاتی بہن 6. اخیافی بہن 7.ماں 8.جدہ(نانی دادی)

عصبہ میت کے وہ رشتہ دار ہوتے ہیں، جن کا حصہ قرآن و حدیث میں متعین نہیں ہے، بلکہ وہ تنہا ہونے کی صورت میں تمام ترکہ کے، اور ذوی الفروض کے ساتھ باقی ماندہ ترکہ کے مستحق ہوتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات

1-قال اللہ تعالی:

وَ لَہُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَکۡتُمۡ اِنۡ لَّمۡ یَکُنۡ لَّکُمۡ وَلَدٌ۔.

ترجمہ: اور ان کے لیے اس میں چوتھائی حصہ جو تم نے چھوڑا ہےاگر تمھاری کوئی اولاد نہ ہو (النساء، الایہ12)۔

۔

ؕ 2- وَ لِاَبَوَیۡہِ لِکُلِّ وَاحِدٍ مِّنۡہُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَکَ اِنۡ کَانَ لَہٗ وَلَدٌ ۚ فَاِنۡ لَّمۡ یَکُنۡ لَّہٗ وَلَدٌ وَّ وَرِثَہٗۤ اَبَوٰہُ فَلِاُمِّہِ الثُّلُثُ ۚ

ترجمہ: اور مرنے والے کےوالدین کو ان میں سے ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا ۔اور اگر اسکی کوئی اولاد نہ ہو اور اس کے والدین ہی وارث ہوں تو اس کی ماں تہائی حصہ کی حقدار ہے۔

(النساء، الایہ11)

3-عن أبي أمامۃ الباہلي رضي اللّٰہ عنہ قال: سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول فيخطبۃ عام حجۃ الوداع: “إن اللّٰہ تبارک وتعالیٰ قد أعطی کل ذي حقٍ حقہ، فلا وصیۃ لوارثٍ”.

(سنن الترمذي، أبواب الوصایا / باب ما جاء في الوصیۃ للوارث 2؍32)

فقط

واللہ اعلم بالصواب

8جمادی الاخری 1443ھ

12 جنوری2022 ء

اپنا تبصرہ بھیجیں