سورۃ البقرہ میں توحید باری تعالیٰ ورسالت کا ذکر

توحید باری تعالی:
والھکم الہ واحد لا الہ الا ھوالرحمن الرحیم ،اس آیت کی فضیلت یہ وارد ہوئی ہے کہ اس میں اسم اعظم کا کچھ حصہ موجود ہے۔
یہ آیت اور اس کے بعد کی آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ ہی عبادت کے لائق ہیں، اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں۔ اللہ ہر چیز پر قادر ہیں، اس کی قدرت اور علم ہر چیز کو شامل ہےاس لیے عبادت ایسی عظیم اورقادر مطلق ہستی کی کرنی چاہیے،لیکن مشرکین کی حالت یہ ہے کہ وہ اللہ تعالی کے بجائے اپنے معبودان باطلہ سے محبت کرتے ہیں اور شدید محبت کرتے ہیں حالانکہ قیامت کے دن یہ اپنے ماننے والوں سے بیزاری اور براءت کا اظہار کریں گے۔ مشرکین جن چیزوں کی عبادت کرتے ہیں وہ بےحیثیت چیزیں ہیں وہ ایسے ہیں کہ نہ دیکھ سکتے ہیں نہ سن سکتے ہیں نہ بول سکتے ہیں،ایسی چیزیں کیا خاک مدد کریں گی!!!
مشرک کے پاس اپنے شرک کے لیےسوائے اندھی تقلید کے کوئی دلیل نہیں ہوتی ۔حالانکہ تقلید تو اہل علم وتقوی کی کرنی چاہیے ، جاہل آباء واجداد کی نہیں۔
عقیدہ رسالت:
نبی کریم ﷺ لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے اس کے باوجود آپ کا قرآن جیسی عظیم کتاب اور اس میں موجود بالکل درست تاریخی واقعات پیش کرنا اورنہایت موزوں اور نپے تلے احکام وقوانین سامنے لانا؛ یہ سب آپﷺ کی رسالت کے دلائل ہیں۔
سات جنم کا عقیدہ:
سات جنم کا عقیدہ ٹھیک نہیں،انسان کا دنیا میں ایک ہی جنم ہے۔دوسری مرتبہ پیدائش آخرت میں ہوگی۔ وَقَالَ الَّذِينَ اتَّبَعُوا لَوْ أَنَّ لَنَا كَرَّةً فَنَتَبَرَّأَ مِنْهُمْ كَمَا تَبَرَّءُوا مِنَّا

بدعت دین کاحصہ نہیں:
لیس البر بان تاتوا البیوت من ظھورھا جس چیز کو اسلام نے ضروری قرار نہیں دیا، اس کو ضروری سمجھناجائز نہیں۔ جس چیز کو اسلام نے عبادت قرار نہیں دیا، اس کواپنی طرف سے عبادت سمجھناجائز نہیں۔ غیر دین کو دین سمجھنا یعنی کہ بدعت اختیار کرنازمانۂ جہالت کا دستور اور مشرک اقوام کا طریقہ ہے۔
سنت قرآن سے منسوخ ہوسکتی ہے:
سنت سے ثابت احکام ، قرآن کے ذریعے منسوخ ہو سکتے ہیں۔اس لیے کہ احل لکم لیلۃ الصیام الرفث اس آیت میں رات کے اوقات میں بیوی سے ہم بستری کو حلال کہا گیا ہے ،اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ چیز حرام تھی، لیکن قرآن میں اس کا ذکر موجود نہیں گویا کہ سنت سے ثابت حکم کو اللہ نے قرآن کے ذریعے سے حلال کیا۔(احکام القرآن:جلد:1 صفحہ319)
عقیدہ حاضرناظرکی تردید:
بعض کم فہم لوگوں نے ویکون الرسول علیھم شھیدا میں شھید سے مراد “گواہ ” لیاہےاور پھر اسی پر اپنے باطل اور خلاف اجماع عقیدے”عقیدۂ حاضر ناظر ” کی عمارت کھڑی کرلی ہے ، حالانکہ گواہ سے مراد یہ ہرگز نہیں کہ آپﷺحاضرناظر ہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ آپﷺ قیامت کے دن اس وقت گواہ بنیں گےجب امت محمدیہ انبیائے سابقین کے حق میں گواہی دے گی اور آپﷺ اپنی امت کی اس گواہی پر گواہی دیں گےاور ان کی تصدیق فرمائیں گے۔
شاہ عبدالعزیز دہلوی رحمہ اللہ کی جس عبارت سے یہ حضرات استدلال کرتے ہیں وہ ادراج اور تحریف ہے ، یعنی شاہ صاحب نے وہ عبارت نہیں لکھی بلکہ کسی نے اضافہ کردیا ہے جس کی دلیل شاہ صاحب کی آگے والی عبارت ہے جس میں شاہ صاحب اسی معنی کی نفی کرتے ہیں۔
اہل علم کے لیے ہدایات
1۔فضول سوال نہیں کرنا چاہیے۔
2۔اگر کسی صاحب ِعلم سے غیر ضروری سوال کیا جائےتو مصلحت سمجھتے ہوئےاس کو چاہیے کہ وہ سائل کوایسا جواب دے جس میں اس کا فائدہ ہو۔ {يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَهِلَّةِ قُلْ هِيَ مَوَاقِيتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ} [البقرة: 189]
3۔ہر کام کو اس کے مہذب طریقے سے کرنا چاہیے۔علم یا کوئی فن سیکھنا ہو یا کوئی عبادت کرنی ہو تواس کے قواعد وضوابط کے مطابق ادا کرنا چاہیے۔{وَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا} [البقرة: 189]

اپنا تبصرہ بھیجیں