1۔بادشاہ نمرود خود کو خدا کہتا تھا۔ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا کہ میرا خدا زندگی اور موت کا مالک ہے۔نمرود نے جواب میں ایک بے قصور شخص کو قتل کروادیا اور موت کی سزا پانے والے مجرم کو رہا کردیا ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب دیکھا کہ یہ خر دماغ اور بدعقل ہے تو ایسی دلیل دی کہ وہ ہکا بکا رہ گیا ہے۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا کہ میراخدا وہ ہے جو سورج کو مشرق سے طلوع کرتا ہے اگر تو خدا ہے تو سورج کو مغرب سے طلوع کرکے دکھا۔نمرود غصے میں آگیا اور آپ کو آگ میں ڈالنے کا حکم جاری کردیا۔{ أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِي حَاجَّ إِبْرَاهِيمَ فِي رَبِّهِ أَنْ آتَاهُ اللَّهُ الْمُلْكَ} [البقرة: 258]
2۔ایک شخصیت (بعض روایات کے مطابق حضرت عزیر علیہ السلام) کے سامنے قیامت کی مثال واضح کرنے کے لیےاللہ تعالی نے ان کو 100 سال تک موت دی پھر دوبارہ زندہ کرکے ان کے سامنے گدھے کے ڈھانچے پر دوبارہ گوشت پوست چڑھا کر زندہ کھڑا کردیا۔یہ صوفیائے کرام کی اصطلاح میں “طے زمان ” کہلاتا ہے{ أَوْ كَالَّذِي مَرَّ عَلَى قَرْيَةٍ وَهِيَ خَاوِيَةٌ عَلَى عُرُوشِهَا} [البقرة: 259]
3۔حضرت ابراہیم علیہ السلام قیامت کی کیفیت سمجھنا چاہتے تھے ،اللہ تعالی نے حکم دیا کہ چار پرندے لو ، انہیں خوب مانوس کرلو پھر انہیں ذبح کرکے ان کے الگ الگ ٹکڑے مختلف پہاڑوں پر رکھ دو، انہوں نےایساہی کیا ،پرندوں کوذبح کرکے ان کو اپنی طرف کوبلایاتو ہرپرندے کے اعضا درست جگہ پر جاکر مل گئے اور پہلے کی طرح مکمل پرندے بن کرپاس آگئے۔ {وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُحْيِ الْمَوْتَى قَالَ أَوَلَمْ تُؤْمِنْ قَالَ بَلَى وَلَكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي قَالَ فَخُذْ أَرْبَعَةً مِنَ الطَّيْرِ} [البقرة: 260]
Load/Hide Comments