تسعیر کی  شرعی حیثیت

کیافرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں

1۔ تسعیر کی کیاشرعی حیثیت ہے ؟

2۔ کیا حکومت کے لیے ہر حال میں بازاری نرخ کنٹرول کرنے کی اجازت  ہے؟

3۔ کیا تجارکے لیے بہر صورت سرکاری نرخ  کی پابندی ضروری ہے ؟

تفصیل اس کی یہ ہے کہ مارکیٹ ریٹ کی حکومتی حدبندی  کی عموماً دوصورتیں ہوتی ہیں :

۱۔جب چیزوں کی کوالٹی  کے فرق،  قدرتی طور  پر پیداوار کی کمی ،حکومت کے غلط انتظام  یا کسی بھی وجہ  سے  طلب کی زیادتی کی وجہ سے قیمتیں  بڑھنے لگیں، اس میں تاجروں کی بدنیتی  یاذخیرہ اندوزی کودخل  نہ ہو، بلکہ تاجرلاگت میں حسب معمول  نفع لگا کرمارکیٹ میں صارفین  کو فروخت  کررہے ہوں ، لیکن خارجی  عوامل کی  وجہ سے قیمتیں  بڑھ گئی ہوں۔ اس صورت میں حکومت عوام کی آسانی کے لیے مارکیٹ  میں بگنی والی اشیاء  کی قیمت مقرر کردے  جس کی وجہ سے عوام کو توریلیف  ملے لیکن  تاجر خسارے یا نفع  میں کمی کاشکار ہوجائیں۔

۲۔دوسری صورت  یہ ہے کہ جب اشیاء  خوردنی  میں گرانی  اور ریٹ  کااضافہ  خود تاجروں کا پیدا کردہ  ہو، بڑے تاجر ذخیرہ اندوزی  کرکے مصنوعی  قلت  پیدا کررہے ہوں، بے تحاشا نفع مانگ رہے ہوں۔ ایسی صورت  میں جبکہ تاجرعامۃ الناس کے پاس اشیاء  خورد و نوش سستی  نہ پہنچنے  دیتے ہوں توعوام کو اس ظلم سے بچانے  کے لئے حکومت آگے بڑھ کر قیمتیں طے کرے ۔

عمومی طورپر شرعی مسئلہ یہی بیان کیا جاتا ہے کہ حکومتی نرخ  سے زائد  نرخ پر خرید وفروخت  کرنا مطلقاً جائزنہیں کیونکہ حاکم وقت  کی اطاعت  واجب ہے ۔ تاہم درج ذیل دلائل سے بظاہر  یہ لگتا ہے کہ یہ پابندی  شرعا صرف دوسری  صورت میں مؤثر  ہونی چاہیے ، پہلی صورت  میں حکومت کو اس طرح کی مداخلت  کا حق شرعا حاصل نہیں ہے۔ کیونکہ :

۱۔متعدد احادیث مبارکہ میں آپ ﷺ نےا س عمل کوناپسندیدہ  قراردیاہے۔ نبی کریم ﷺکےمبارک دورمیں  ایک مرتبہ مدینہ طیبہ  میں اشیاء کے نرخ بڑھ گئے  جس پر لوگوں نے آپ سے شکایت  کی جیساکہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :

ترجمہ: نبی اکرم ﷺ کےعہد مبارک میں مدینہ میں  چیزوں کے نرخ بڑھ گئے  ، لوگوں نے کہا اے اللہ کے رسول ﷺ نرخ  بہت بڑھنے لگے ہیں آپ ہمارے لیے  قیمتوں پر کنٹرول کریں تورسول  ﷺنےفرمایا : یقینا اللہ تعالیٰ ہی نرخ مقرر کرنے والا ہے، وہی  مہنگا  کرنے والاہے ، وہی سستا کرنے والاہے اور وہی رزق دینے والا ہے ۔ میں اس بات کا امیدوار ہوں کہ اللہ تعالیٰ کو اس حال میں ملوں کہ کوئی شخص مجھ سے خون یا مال میں ظلم  کی بناء پرمطالبہ کرنےوالا نہ ہو۔“(ابوداؤد)

وکذا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الخ(بدائع الصنائع فی ترتیب  الشرائع)

۲۔اپنے مملوکہ  سامان کی قیمت طے کرنا  ہر آزاد  تاجر کا حق ہے، اس میں مداخلت  شرعا مناسب نہیں ، درج بالا حدیث  کے آخری الفاظ  قابل توجہ ہیں کہ ”اس بات کا امیدوار ہوں کہ میں اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملوں کہ مجھ پر کسی  کاخونی یا مالی حق نہ ہو‘ اس سے معلوم ہوا کہ قیمتوں کو کنڑول  کرنا گاہک  یا دکاندار کسی ایک پرظلم  ہے جس کی ذمہ داری قبول  کرنے پرآپ ﷺ آمادہ نہ تھے ۔

(ولامال) أراد بالمال ھذا۔۔۔الخ

اسی وجہ سے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تسعیر کے مشہور مخالف ہیں ۔

قال رحمة اللہ ـولا یسعر۔۔الخ

(تبیین  الحقائق شرح  کنزالدقائق )

۳۔فقہائے کرام نے عمومی حالات میں تسعیر  کو ناجائز قراردیا ہے اورصرف مجبوری  کی حالت میں عبوری دورکے لیے حکومت  کو قیمتوں پر پابندی لگانے کی اجازت دی ہے  جبکہ ذخیرہ اندوزی کی جارہی ہو اور تاجر دوگنی تگنی  قیمت پر اشیائے ضرورت فروخت  کررہے ہوں ۔ جب یہ مصنوعی قلت  ختم ہوجائے اوربازار طلب ورسد  کے قدرتی نظام پرآجائے تویہ تسعیر پسند نہیں کی گئی ہے:

قال رحمة اللہ ۔۔۔الخ البحر الرائق شرح کنز الدقائق

واما لایسعر لما روی الخ ۔۔۔۔۔۔۔۔المحیط البرھانی 

ولا یسعر حاکم الخ۔۔۔۔۔الدرالمختار

۴۔جوفقہائے کرام  تسعیر کے قائل ہیں وہ بھی ہر طرح کی مہنگائی  میں تسعیر  کی اجازت نہیں دیتے ہیں بلکہ وہ بھی  اس درجہ مہنگائی کے بعد ا س کو اختیار کرنے  کے قائل ہیں جب تاجر مصنوعی مہنگائی پیدا کرکے دگنی قیمتیں وصول  کرنے لگیں :

وقوله (ویتعدون عن القیمة۔۔الخ (العنایة شرح الھدایة )

۵۔اس صورت  میں بھی تسعیر  فوری پہلا اقدام  نہیں ہونا چاہیے  بلکہ متعلقہ افرادکو باربار فہمائش اورمذاکرات  کےبعد یہ قدم اٹھانا چاہیے ۔

وینبغی للقاضی  أ‍وسلطان۔۔۔الخ  ( تبیین الحقائق شرح کنزالدقائق)

۶۔تسعیر کی جائزصورت  میں بھی حکومت  کوفقہ حنفی  میں یہی مشورہ دیا گیا ہے وہ معاشیات واقتصادیات  کے ماہرین اوردیندار تاجروں سے مشورے سے ہی قیمتوں کا تعین کریں  

وإن کان الخ۔۔۔۔۔۔۔المحیط البرھانی 

لہذا مندرجہ دلائل کوسامنے رکھتے ہوئے سوال یہ کہ

۴۔اگرحکومت  وقت تمام شرعی ہدایات سے قطع نظر کرکے کسی چیز کی قیمت فروخت متعین کردے، اس سے زائد  قیمت پر فروخت پر پابندی  لگادے جبکہ تاجر برادری عدل وانصاف  کی بنیاد پر موقوف رکھتی ہو کہ قیمتوں کے اضافے  میں ان کا کوئی کردار نہیں ہے اور نہ ہی وہ اس کی وجہ سے وہ بے تحاشا نفع سے لطف  اندوز ہورہے ہیں ،توکیا اس صورت میں بھی ان کے لیے اس پابندی  کی ہرحال میں رعایت  رکھنی لازم ہے یا وہ اس قانون کے خلاف  سرکاری ایوانوں میں آواز اٹھاسکتے ہیں اور اگر  ان کےجائز مطالبات نہیں سنے جائیں تووہ صریح جھوٹ اور دھوکہ سے بچتے  ہوئے سرکاری نرخ  سے ہٹ کر چیزیں فروخت کرسکتے ہیں ؟

فإذا فعل ذلک ثم تعدی ۔۔۔الخ۔۔۔۔۔۔۔۔۔المحیط البرھانی

العارض

بندہ محمد وصی

الجواب حامداومصلیاً

۱)واضح رہے  کہ اسلامی معیشیت  کا بنیادی اصول  یہ ہے کہ اشیاء کی قیمتوں کے تعین  کو دوکاندارا ورخریدار کی  باہمی رضامندی پر چھوڑدیا جائے تا کہ ایک آزاد مارکیٹ وجود میں آئے اورطلب ورسد کے قدرتی  اصول  کے تحت قیمتوں کا تعین ہواوربازارپرکسی کی اجارہ داری  قائم نہ ہو جواشیاء کی قیمتوں کواپنے مفادات کی خاطر کنٹرول کرے، چناچہ عام حالات میں دوکاندار کو اس بات کا پابند  بنانا کہ وہ اپنی اشیاء کوایک مقررہ قیمت سے کم یا زیادہ پرنہ بیچے، درست نہیں، اس سلسلے میں حدیث شریف میں آتا ہے  کہ آپ ﷺ کےزمانے میں ایک دفعہ  اشیاء کی قیمتیں  مہنگی ہوگئیں توصحابہ  رضوان اللہ اجمعین  نے آپ ﷺ  سےدرخواست کی کہ آپ اشیاء  کے نرخ  مقرر فرمادیجیے  توآپ ﷺ نے فرمایا کہ :”ان اللہ ھو المسعرا لقابض الباسط الرزاق “ ( بے شک  اللہ ہی اشیاء کےنرخ  متعین  کرنے والے ہیں، وہی چیزوں کی رسد میں کمی کرنے والے اور زیادتی کرنے والے ہیں اور وہی رازق ہیں ) اللہ تعالیٰ کوقیمت  مقررکرنے والا قراردینے کا واضح مطلب حدیث  کے سیاق میں یہ بھی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے طلب ورسد  کے فطری اصول مقرر فرما دیے ہیں جن سے قیمتیں فطری  طورپر متعین ہوجاتی ہیں ۔( مستفادہ من ”اسلام  اورجدیدمعیشت وتجارت )

سنن الترمذی ۔(3/605)

۲۔واضح رہے کہ ہر شخص اپنے مال کا خود مالک ہوتا ہے  خواہ وہ تاجرہو یا عام شہری ،اور چونکہ ہرمالک کو شرعاً یہ حق حاصل ہے کہ وہ ظلم  وزیادتی  کئے بغیر اپنے مال کی جو قیمت  چاہے لگائے، اس لیے  عام حالات میں عام اشیاء میں کسی بھی حکومت کومالک کا یہ شرعی  حق سلب  کرنے اور انہیں کسی خاص نرخ کا پابند بنانے کا حق نہیں ہے (مأخذہ التبویب )  تاہم اگر غلط  نظام تجارت  کے باعث تاجروں اور مالداروں کی اجارہ داریاں اس حد تک قائم ہوجائیں  کہ وہ ظلم کرنے لگیں ، اور حکومت دیانت داری سے یہ محسوس کرے کہ اشیاء  کے نرخ کا تعین کئے بغیر کوئی چارہ کار نہیں ہے توایسی صورت میں ماہرین کے مشورے سے اس کی بھی اجازت ہے، لہذا اگر ایسی صورت  حال درپیش ہو تو حکومت اشیاء کے ایسے معقول  نرخ مقرر کرسکتی ہے جس میں فریقین  اور اسلامی معاشرے کی مصلحت ہو۔ ( مستفاد من ”نوادرالفقہ )

الھدایة فی شرح  ہدایة المبتدی (4/377)

الفتاوی الھندیة ۔ (3/214)

(۳/۴) اگر  حکومت کی طرف سے اشیاء کا نرخ  متعین کردیا جائے اور متعین نرخ  سے زیادہ قیمت پر بیچنے کی پابندی ہو توا س صورت  میں حکومت کی طرف سے متعین کردہ قیمت  پر بیچنا  حکومتی قانون کی خلاف ورزی کی بناء پر ناجائز ہے ،لیکن اگر حکومت کی طرف سے مقرر کردہ قیمت پر بیچنے میں تاجروں کو واقعتا ضرر ہو یعنی مالی نقصان ہو اور وہ نقصان سے بچنے کے لیے ایسی قیمت پر فروخت کریں جو مارکیٹ ریٹ کے مطابق ہو تو ان کی بیع درست ہوگی ، البتہ اگر نفع کم ہو تو یہ جلب منفعت ہے ،اس صورت میں حکومت کی طرف سے متعین کردہ قیمت پر ہی  بیچنا ضروری  ہے اس سے زیادہ  قیمت پر بیچنا جائز نہیں ہے، اگرچہ  ثمن پھر بھی حلال ہوگا۔

اب یہ فیصلہ   کرنا کہ مہنگائی  کی وجہ سے ذخیرہ اندوزی  ہے یا خارجی  عوامل ؟ یہ حکومت  کا کام ہے۔ اگر تاجر سمجھتے ہوں کہ عوامل  واقعۃً خارجی ہیں  توپھروہ ایوان میں آواز اٹھاسکتے ہیں، اورمتعلقہ محکمہ سے رجوع  کرکے اپنی شکایات کا ازالہ  بھی کرسکتے ہیں، اور اگر  تمام تر قانونی کوششوں کے باوجود کوئی حل نہ نکلے توتاجروں  کے لیے اس بات کی گنجائش ہے کہ وہ فریقین اورا سلامی معاشرے  کی مصلحت  کومدنظر رکھتے ہوئے  اپنے لیے مناسب  نفع رکھ  کر اشیاء  بیچیں ، بشرطیکہ بازاری قیمت سے زیادہ نہ ہو اور دھوکہ دہی اور جھوٹ  سے مکمل احتراز کیاجائے ۔

درالمختار  شرح مجلة الأحکام ۔ (1/51)

تکملة فتح  الملھم )3/323)

وفیه ایضاً:۔(3/323)

الأشباہ  والنظائر  لابن نجیم ۔ (1/124)

الشامیة۔(6/400)

شیخ نور عفی عنہ

دارالافتاء جامعہ  دارالعلوم کراچی

۲۲/رجب  المرجب ۱۴۴۱ھ

18/مارچ  2020

الجواب صحیح

احقر محمود اشرف غفر اللہ

مفتی جامعہ دارالعلوم کراچی

عربی حوالہ جات وپی ڈی ایف فائل میں فتویٰ حاصل کرنےکےلیےلنک پرکلک کریں :

https://www.facebook.com/groups/497276240641626/permalink/1057374371298474/

اپنا تبصرہ بھیجیں