والدین کے ترکہ سے بعض بھائیوں کا بعض بھائیوں کو حصہ نہ دینے کا حکم

سوال : والد صاحب کے دو گھر تھے ۔ان کی وفات کے بعد ہم 6بھائی اور ایک بہن اور والدہ وارث ہوے ۔مکانوں میں والدہ کا حصہ بھی تھا ۔تین بھائی ان گھروں میں رہائش پذیر ہیں ۔چنانچہ ایک بہن اور تین بھائیوں نے اپنا حصہ لے لیا۔۔والدہ کے انتقال کے بعد ان کے حصے پر رہائش پذیر بھائی قابض ہیں نہ دوسرے بھائیوں کو حصہ کی رقم دیتے ہیں نہ ہی تسلیم کرتے ہیں کہ ان مکانوں میں امی کا حصہ بھی تھا۔۔کچھی کہتے ہیں کہ تم لوگوں کے حالات اچھے ہیں تمھیں حصے کی کیا ضرورت ہے ۔۔
اس صورت میں باقی تین بھائی کیا کریں ۔

الجواب باسم ملھم الصواب

مذکورہ صورت میں والد کی تجہیز وتکفین اور قرض و وصیت کی ادائیگی کے بعد ترکہ میں تمام ورثا اپنے شرعی حصوں کے بقدر شریک ہیں،اب اگر کوئی وارث دوسرے وارث کو اس کا حصہ نہیں دیتا تو وہ عند الله سخت وعید کا مستحق اور گناہ گار ہوگا-

چنانچہ حدیث شریف میں ہے کہ : نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ” جو شخص اپنے وارث کو ترکہ دینے سے بھاگے گا ( ایسی وصیت کرے گا جس سے جائز وارث کو حصہ نہ ملے یا اس کے اصل حصہ سے کم ملے) تو اللہ تعالی قیامت کے دن اسے اس کی جنت کی میراث سے محروم فرما دے گا۔
________________
حوالہ جات:
1۔فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُم ۚ مِّن بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ
(سورة النساء 12)
ترجمہ :
پھر اگر تمہاری کوئی اولاد ہو تو ان کے لئے تمہارے ترکہ میں سے آٹھواں حصہ ہے تمہاری اس ( مال ) کی نسبت کی ہوئی وصیت ( پوری کرنے ) یا ( تمہارے ) قرض کی ادائیگی کے بعد ،
2 : عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((اَعْظَمُ الْغُلُوْلِ عِنْدَ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ ذِرَاعٌ مِنَ الْأَرْضِ تَجِدُوْنَ الرَّجُلَیْنِ جَارَیْنِ فِیْ الْأَرْضِ أَوْ فِیْ الدَّارِ فَیَقْتَطِعُ أَحَدُھُمَا مِنْ حَظِّ صَاحِبِہِ ذِرَاعًا فَاِذَا اقْتَطَعَہُ طُوِّقَہُ مِنْ سَبْعِ أَرْضِیْنَ اِلٰییَوْمِ الْقِیَامَۃِ۔

(مسند احمد: 6195)

ترجمہ:
نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالی کے نزدیک سب سے بڑی خیانت ایک ہاتھ زمین ہے اور وہ یوں کہ دو آدمی ایک زمین یا گھر میں شریک ہوتے ہیں، لیکن ان میں سے ایک اپنے ساتھی کے حصے میں سے ایک ہاتھ کے بقدر ناحق اپنے قابو میں کر لیتا ہے، جب وہ اس پر قبضہ کرتا ہے تو اسے روز قیامت تک سات زمینوں کا طوق پہنایا جائے گا۔
3 : عن انس بن مالک قال : قال رسول اللہ ﷺ : ” من فر من میراث وارثہ قطع اللہ میراثہ من الجنة یوم القیامۃ۰
( ابن ماجہ : 2703 )
ترجمہ : نبیﷺ نے فرمایا :” جو شخص اپنے وارث کو ترکہ دینے سے بھاگے گا ( ایسی وصیت کرے گا جس سے جائز وارث کو حصہ نہ ملے یا اس کے اصل حصہ سے کم ملے) تو اللہ تعالی قیامت کے دن اسے اس کی جنت کی میراث سے محروم فرما دے گا-
4 :ثم يقسم الباقي بين ورثته بالكتاب أو السنة.
(شامي كتاب الفرائض 10/497)
5: لا يجوز لأحد ان يتصرف في مال الغير بلا اذنه۰
(شرح المجلة المادة96: 1/262)
6 : لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي۰
(بحر الرائق كتاب الحدود فصل في التعزير 1/68)
7: تتعلق بتركة الميت حقوق أربعة مرتبة: الأول: يبدأ بتكفينه وتجهيزه من غير تبذير ولا تقتير، ثم تقضى ديونه من جميع ما بقي من ماله، ثم تنفذ وصاياهمن ثلث ما بقي بعد الدين، ثم يقسم الباقيبين ورثته بالكتاب السنة وإجماع الأمة. فيبدأ بأصحاب الفرائض، وهم الذين لهم سهام مقدرة في كتاب الله تعالى۰
(سراجي في الميراث : 8)
8 : وارثین کی اجازت کے بغیر بڑے بھائی کو تنہا تصرف کرنے کا حق نہیں اگر اس نے تصرف کیا تو وہ دیگر حصہ داروں کی طرف سے عنداللہ مؤاخذہ دار ہوگا اور اس پر سب حق داروں کو ان کا حق دینا لازم ہوگا-
(کتاب النوازل 18/144)
9 : بیٹیوں کا حصہ جس طرح باپ کی میراث میں ہوتا ہے اسی طرح ماں کی میراث میں بھی ہوتا ہے –
(آپ کے مسائل اور ان کا حل 7/403)
واللہ اعلم بالصواب
22 ربیع الاول 1444
19 اکتوبر 2022

اپنا تبصرہ بھیجیں