دوانتہاء پسند

مسلم تاریخ کے بالکل آغاز میں خوارج مذہبی اور معتزلہ روشن خیال انتہا پسندی کا استعارہ ہیں. اگرخوارج نے صحابہ جیسے مقدس بزرگوں کی تکفیر کی اور ان سے جنگیں روا رکھیں تو معتزلہ نے حکومتی جبر کا سہارا لے کر اہل سنت علما پر ظلم کی داستان رقم کی. 

موجودہ دور میں تاریخ نے پھر اپنے آپ کو دھرا کر انتہا پسندی کی ان دونوں صورتوں کی پھر سے تجدید کی ہے لیکن یہ پیر مغرب کی ساحری کا اعجاز ہے کہ مسلم دنیا کی یونیورسٹیوں، این جی اوز اور دانشوروں نے صرف خوارج والی انتہا پسندی کو کانفرنسوں‎‏، سیمیناروں، تحقیقی کتابوں اور مقالوں کا موضوع بنا رکھا ہے لیکن روشن خیالی والی انتہا پسندی پر ایسی سرگرمی نظر نہیں آتی حالانکہ مسلم معاشرے کی تباہی میں اس انتہا پسندی کے اعداد و شمار کچھ کم نہیں ہیں. اس روشن خیال انتہا پسندی کی علمی اور اخلاقی بد دیانتی کی نظیر ان کی وہ کتابیں اور تحریریں بھی ہیں جو آئے دن کثرت سے شائع ہوتی ہیں جن میں سب سے زیادہ اسی معروضیت کا خون ہوتا ہے حالانکہ ان لوگوں کا نعرہ صبح و شام یہی معروضیت اور غیر جانب داری ہوتا ہے. دوسرے لفظوں میں اس وقت معتزلہ خوارج کو اعتدال کا درس دے رہے ہیں. ان دو انتہاؤں کے درمیان یہ علما کا کام ہے کہ اسلام کے حقیقی منہج وسط کی طرف انسانیت کو بلائیں اور وہ منہج وسط مزاج دعوت ہے. یہ قدیم نافع اور جدید صالح کو اپنانے کا مزاج ہے. اعتزالی انتہا پسندی کا ایک چھوٹا سا سمپل دیکھنا ہو تو رانا تنویر عالمگیر کی کتاب “اسلام کو مولوی سے بچاؤ ” دیکھنی چاہیے. اس سے اگلے درجے کے کسی پاپولر میرٹھی کو دیکھنا ہو تو بزعم خود امام تاریخ ڈاکٹر مبارک علی کی کتابیں دیکھنی چاہییں. جہاں تک ملحدین کی دیانت کا تعلق ہے تو ان کا اللہ ہی حافظ ہے.

اپنا تبصرہ بھیجیں